روزہ : مختلف مذاہب میں
روزہ : مختلف مذاہب میں
ــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــ ــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــ
اسلام اسی مذہب کا تسلسل ہے جو مختلف انبیاء کرام ؑ کے ذریعے بنی نوعِ انسان کے لیے نازل کیا جاتا رہا۔ اسلام کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ وہ آفاقی و ابدی سچائی کا احیا کرے اور لوگوں نے جو ملاوٹیں اس میں شامل کر دی ہیں ان سب آلائشوں کا خاتمہ کردے۔ یہ سمجھنا غلط ہوگا کہ ہر نبی اپنے لوگوں کے لیے ایک نیا مذہب لے کر آتا تھا۔
صبائیت:
…………
حضرت ابراہیمؑ حران کے صابیوں کی طرف مبعوث کیے گئے تھے جو چاند کی پرستش کے لیے تیس دن کے روزے رکھتے تھے جن میں صبح سے لے کر رات تک کھانا پینا ممنوع ہوتا تھا۔ قرآن نے ہمیں حکم دیا ہے کہ نہ تو ہم سورج کی پوجا کریں اور نہ چاند کی بلکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں جو سورج اور چاند دونوں کا خالق ہے۔ اور قرآن کے ذریعے ہمیں حضرت ابراہیم کے سچے مذہب دینِ حنفی کی پیروی کرتے ہوئے ایک مہینے (رمضان ) کے روزے رکھنے کا حکم دیا ہے۔
ہندو ازم:
…………..
ہندوستان کے ہندوؤں میں روزہ رکھنا ایک مستحسن عمل سمجھا جاتا ہے لیکن یہ فرض نہیں ہے۔ مختلف مواقع پر ہندو روزہ رکھتے ہیں ، جیسے سورج گرہن کے موقع پر ، کسی مقدس شخصیت کے جنم دن پر یا کسی مخصوص تہوار پر ۔ دوپہر کے بعد وہ روزہ کھول لیتے ہیں۔
یہودیت:
………….
یہودیوں میں جو متقی اور پرہیزگار لوگ ہیں وہ ہر جمعرات اور پیر کو روزہ رکھتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ موسٰیؑ طورِ سینا پر جمعرات کے دن گئے اور(پورے چالیس دن بعد) سوموار(پیر) کو واپس آئے۔ اسلام نے بھی ان دنوں کے روزوں کو نیک عمل قرار دیا ہے لیکن یہ روزے نفلی ہیں فرض نہیں ہیں۔
اس کے علاوہ یہودی ۱۰ ماتشری() کوفرعون سے نجات پانے کی یادگار کے طور پر چوبیس گھنٹے کا روزہ رکھتے ہیں۔ اس دن (جسے یومِ کپور کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے) یہودی دعا کرتے ہیں: ”اے اللہ ! تو نے اس دن کی تقدیس خروجِ مصر کی یادگار کے طور پر فرض کی ہے۔“
مسلمان بھی دس محرم کو جسے یومِ عاشورہ کہا جاتا ہے ایک نفلی روزہ رکھتے ہیں ۔جو کہ نبی اکرمﷺ کے دور سے چلا آرہا ہے اور اس کا شہادتِ نواسۂ رسول حضرت حسینؓ سےکوئی تعلق نہیں ہے۔
یقیناً ۲۴ گھنٹے کا روزہ بڑا سخت حکم ہے اس لیے اسلام میں اعتدال پیدا کیا گیا ہے اور اس وقت کو صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک محدود کیا گیا ہے تاکہ مسلمانوں کی بڑی تعداد یہ روزہ رکھ سکے۔
عیسائیت:
……………
ابتدائی دور کے عیسائی ایسٹر سے پہلے () چالیس دن تک روزے رکھتے تھے جن میں سے اتوار کا دن مستثنیٰ ہوتا تھا یعنی چھ ہفتوں کے دوران ۳۴ دن روزے سے گزارتے تھےاور ایسا وہ حضرت عیسیٰؑ کی صحرا نشینی کی یادگار کے طور پر کرتے تھے۔(حوالہ: Encyclopedia Of Religions and Ethics, Vol. V, p. 769) عیسائی یہ خیال کرتے تھے کہ یہ ۳۴ دن پورے سال کے دسویں حصےکی نمائندگی کرتے ہیں۔ چونکہ بطور صدقہ وہ اپنی جائیداد کا دسواں حصہ خیرات کرتے تھے اس لیے کھانے پینے پر بھی سال کے دسواں حصے کی پابندی لگائی۔
نبی پاکﷺ نے فرمایا : ”ہر چیز پر زکوٰۃ ہوتی ہے اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے۔“ (ابن ماجہ) آپﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ جو شخص رمضان کا سارا مہینہ اور اس کے بعد شوال کے مہینے میں بھی چھ روزے رکھے تو گویا اس نے سارا سال روزے رکھے۔ (ابو داؤد) یہ بھی ۳۶ دن بنتے ہیں اور قرآن پاک میں ارشاد ہے: جو شخص بھی ایک نیکی کرے گا اسے دس گنا اجر ملے گا۔“ (الانعام:۱۶۱) ایک مہینہ (اجر وثواب کے لحاظ سے) دس مہینوں کے برابر ہوگا اور چھ دن ساٹھ دنوں کے یعنی دو مہینے کے۔(گویا پورا سال )
قمری مہینہ کبھی ۲۹ اور کبھی ۳۰ دن کا ہوتا ہے اور قمری سال تقریباً ۳۵۵ دن کا۔ اگر ہم ایک سال( ۲۹+۶=۳۵ ) پنتیس(۳۵) روزے رکھیں اور دوسرے سال (۳۰+۶=۳۶) تو ان دونوں سالوں کا دس گنا ۳۵۰ اور ۳۶۵ دن بنے گا جن کا اوسط ۳۵۵ دن بنے گا۔ گویا یہ مسلمانوں کا ایک قمری سال بنے گا لیکن عیسائی مذہب میں ایسا نہیں ہوگا کیونکہ وہ شمسی تقویم استعمال کرتے ہیں جس کے مطابق ایک سال تقریباً ۳۶۵ دن کا ہوتا ہے۔ عیسائی ۴۰ دن میں ۳۴ روزے رکھتے ہیں اگر ۴۰ کا دس گنا کیا جائے تو یہ ۴۰۰ دن بنتے ہیں اور ۳۴ کا دس گنا ۳۴۰ بنتے ہیں۔ یعنی ۳۶۵ دن کسی صورت نہیں بنیں گے۔ یہ وضاحت اس لیے کی گئی ہے کہ روزہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ اس کو قرآن میں بیان کیا گیا ہے۔
پارسی مذہب ، بدھ مت اور دوسرے مذاہب میں بھی روزے کا تصور موجود ہے۔ لیکن کسی مذہب کے اتنے لوگ روزہ نہیں رکھتے جتنی کثیر تعداد مسلمانوں کی روزہ رکھتی ہے۔
البتہ ایک بات شروع ہی سے واضح کر دیں کہ اسلامی روزے میں فجر (یعنی طلوع آفتاب سے ڈیڑ ھ گھنٹہ قبل) سے لیکر غروب آفتاب تک ہر قسم کا کھانا ، پینا، سگریٹ پینا، ٹیکہ یا انجکشن لگوانا حرام ہوتا ہے ۔ برے خیالات کو بھی روکنے کی کوشش کرنی ہوتی ہے بھول چوک البتہ معاف ہے اوراللہ رب العزت سے کوئی چیز ہم چھپا نہیں سکتے ۔
…………….
(اقتباس: روزہ کیوں؟ از ڈاکٹر محمد حمیداللہ)