حج
Hajj
By Dr. Muhammad Hamidullah,
Excerpt from Khutbat e Bahawalpur
Excerpt from Khutbat e Bahawalpur
حج
(خطبات بہاولپور
سے اقتباس)
سے اقتباس)
ڈاکٹر محمد حمید
اللہ
اللہ
دوسری قوموں کا حج یا تو اپنے کسی بزرگ، کسی ولی، کسی بانی
مذہب کی قبر کی زیارت کرنا ہے یا مظاہر قدرت اور عجائبات میں سے کسی بہت ہی عجیب چیز
کی زیارت کرنا ہے، چنانچہ ہندو دریائے گنگا کے منبع کی زیارت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں
کہ اس میں بڑا ثواب ہے۔ دریائے گنگا اور جمنا کا سنگم، جو الہ آباد کے مقام پر ہے،
اس کی زیارت میں بڑا ثواب سمجھتے ہیں۔ اسی طرح عیسائیوں کے ہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام
کی جو مبینہ قبر ہے، ہر چند کہ وہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر جا
چکے ہیں اور قبر خالی ہے، لیکن ان کے نزدیک اس قبر کی زیارت کرنا بہت ثواب کا کام ہے۔
عام عیسائی جو بیت المقدس نہیں جا سکتے ہیں، وہ سینٹ پیٹر کی قبر کی، جو ویٹیکن اٹلی
میں ہے، زیارت کرنا ثواب سمجھتے ہیں اور مذہب کے نام تک سے نفرت کرنے والے کمیونسٹ
جب انگلستان جاتے ہیں تو ان کے نہایت ہی محترم افراد مثلاً وزیر اعظم اور وزیر خارجہ
بھی کارل مارکس کی قبر کی زیارت کو ضرور جاتے ہیں، جو انگلستان میں دفن ہے۔ گویا ان
کے ہاں بھی حج پایا جاتا ہے لیکن یہ سارے حج یا تو مظاہر قدرت کے کسی مقام کی زیارت
یا اپنے کسی مقدس آدمی کی قبر کی زیارت پر مشتمل ہیں۔ مسلمانوں کا حج ان سب سے مختلف
ہے اور وہ ہے اللہ کے گھر کی زیارت۔ اس کے حضور میں، اس کے مکان میں حاضر ہو کر باریابی
حاصل کرنا۔ کعبے کو علامتی طور پر بیت اللہ کہا جاتا ہے۔ یہ ایک رمز ہے جس کی توجیہ
ان نوجوانوں کے لیے شاید دلچسپی کا باعث ہو جنہوں نے کبھی اس پہلو پر غور نہیں کیا۔
اللہ کے اسماء حسنیٰ ننانوے ہیں۔ قرآن مجید میں ایسے نام بھی ہیں جو اللہ کی صفات کے
مظہر ہیں مثلاً رازق، خالق وغیرہ وغیرہ، ان ناموں میں سے جو نام میری رائے میں انسان
اور خدا کے تعلق کی سب سے بہت نمائندگی کرتا ہے وہ نام ہے “ملک” بادشاہ جب
ایک نام کسی ایک غرض کے لیے منتخب کر لیا گیا تو انسانی سوسائٹی میں ان نام کے ساتھ
جو لوازم ہیں ان کو بھی قبول کرنا ہوگا۔ بادشاہ سے کچھ چیزیں خاص طور پر منسوب ہیں
مثلاً بادشاہ کا ایک تخت ہوتا ہے۔ قرآن میں اس کا ذکر آیا ہے خدا کا عرش ہے۔ عرش کے
معنی تخت کے ہیں۔ بادشاہ کے پاس فوجیں ہوتی ہیں (وَلِلَّهِ
جُنُودُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ) (4:48) (آسمانوں اور زمینوں
کی فوجیں اللہ ہی کی ہیں) بادشاہ کے پاس خزانے ہوتے ہیں (وَلِلَّهِ
خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ) (7:63) (زمین و آسمان
کے خزانے اللہ ہی کے ہیں۔ بادشاہ کے پاس ملک ہوتا ہے (وَلِلَّهِ
مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ) (189:3)۔ جب سلطنت کا رقبہ
وسیع ہو تو بادشاہ پایہ تخت یا صدر مقام تجویز کرتا ہے۔ پایہ تخت کے لیے انگریزی زبان
کے ایک لفظ سے آپ واقف ہوں گے (Metropolis)۔
یہ ایک یونانی لفظ ہے جس کے معنی ہیں “شہروں کی ماں” اس معنی میں قرآن
(92:6) کا لفظ ہے “ام القریٰ”
اور شہر مکہ “ام القریٰ”ہی کے نام سے مشہور ہے،
گویا اللہ کی سلطنت کا وہ صدر مقام ہے۔ جب ایک میٹروپولس یا ام القریٰ ہو تو وہاں بادشاہ
کا محل بھی ہوگا، چنانچہ بیت اللہ الحرام، اللہ کا مکان یا اللہ کا گھر وہاں پر موجود
ہے گویا کعبہ جو بیت الحرام ہے (قرآن 97:5) یہ اس بادشاہ کا محل ہے، کسی ملک میں بادشاہ
ہو تو یہ ہمیشہ رواج رہا ہے کہ رعایا کے نمائندہ پایہ تخت کو جا کر بادشاہ کے ہاتھ
پر بیعت کرتے اور اپنی اطاعت کا یقین دلاتے ہیں۔ حج کے سلسلے میں جب لوگ مکہ معظمہ
جاتے اور کعبے کے سامنے حاضر ہوتے ہیں تو وہ حجر اسود پر اپنا ہاتھ رکھتے ہیں اور حجر
اسود کو (اور اگر دور ہوں تو ہاتھ سے اشارہ کر کے اپنے ہاتھ کو) بوسہ دے کر طواف کا
آغاز کرتے اور اسے جاری کرتے ہیں۔ اس کو ہمارے فقہاء دو ناموں سے یاد کرتے ہیں۔ اسے
استلام بھی کہتے ہیں اور بیعت بھی کہتے ہیں۔ بیعت کے معنی ہیں اپنے آپ کو بیچ دینا۔
اپنے آپ کو (اللہ کے ہاتھ) فروخت کر دینا اور کہہ دینا کہ اے اللہ! میں اپنی ذات کو
تیرے سپرد کرتا ہوں۔ ہم اللہ سے ایک معاہدہ کرتے ہیں اور اس معاہدے کی تکمیل کرتے ہیں۔
معاہدے کرنے کا عام طور پر ایک طریق یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کے ہاتھ پر اپنا
ہاتھ رکھتا تھا، چنانچہ ہم اپنا ہاتھ اللہ کے ہاتھ پر رکھتے ہیں۔ اس لفظ سے آپ گھبرائیے
نہیں کہ اللہ کے ہاتھ پر ہم اپنا ہاتھ رکھتے ہیں۔ ایک متواتر حدیث ہے جسے پانچ صحابہ
نے روایت کیا ہے۔ اس کے الفاظ ہیں الحجر الاسود یمین اللہ فی الارض (حجر اسود زمین
پر اللہ تعالیٰ کا دایاں ہاتھ ہے) چنانچہ اللہ کے دائیں ہاتھ پر ہم معاہدہ کرتے اور
بیعت کرتے ہیں۔ جب اپنی بیعت کے ذریعے سے اپنے بادشاہ کو ہم اطمینان دلا دیتے ہیں کہ
ہم اس کے سچے اور مخلص مطیع ہیں تو سب سے بڑا اعزاز، وہ مالک جو ہم کو عطا کر سکتا
ہے وہ یہ ہے کہ اپنے گھر کی پاسبانی کے لیے ہمیں اپنا سنتری بنائے۔ کعبے کے اطراف ہم
طواف کرتے ہیں یعنی بادشاہ کے گھر کی حفاظت کرتے ہیں۔ ساری عمر یا روزانہ چوبیس گھنٹے
پہرہ دینے کے بجائے سات مرتبہ طواف کرنا کافی قرار دیا گیا ہے۔ سات کا عدد رمزیہ یا
علامتی (Symbolic) ہے۔
چنانچہ وقت جس کی ابتداء معلوم ہے نہ انتہا، اس لامحدود شے کو جب ہم نے شمار کی غرض
سے محدود کرنا چاہا تو ہم نے سات ہی کا عدد استعمال کیا۔ ہفتے میں سات دن ہوں گے، وہی
سات دن بار بار اپنے آپ کو دہراتے رہیں گے اور بہت سی چیزیں مثلاً سبع السمٰوات وغیرہ۔
سات کا ہندسہ بطور رمز غیر محدود کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ لہذا اللہ کے گھر کی
پاسبانی کے لیے اگر ہم سات مرتبہ اس کے اطراف چکر لگائیں تو یہ ابدی طور پر اپنے فریضے
کی انجام دہی کے ہم معنی ہو جاتا ہے۔ قصر شاہی کی پاسبانی بڑا اعزاز ہے، اور انتہائی
قابل اعتماد سپاہیوں کو عطا کیا جاتا ہے کیونکہ بادشاہ کی جان و مال گویا ان سنتریوں
کے رحم و کرم پر منحصر ہوتی ہے۔ یہ گفتگو حج کے ایک جز یعنی کعبے کی زیارت اور کعبے
کے طواف کے متعلق تھی۔ لیکن حج میں کچھ اور چیزیں بھی ہیں۔ صفا اور مروہ کے درمیان
سعی کرنا اور چکر لگانا، اسی طرح عرفات کو جانا اور پھر منیٰ کو جانا۔ چند الفاظ میں
ان کے متعلق بھی عرض کروں کا کہ ان میں کیا رمز پایا جاتا ہے۔ صفا اور مروہ کے متعلق
آپ کو معلوم ہوگا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قصہ ہے۔ اللہ کے حکم سے حضرت ابراہیم
علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت اسمعیل علیہ السلام اور اپنی بیوی حضرت ہاجرہ کو ایک بے
آب و گیاہ صحرا میں تنہا چھوڑ کر چلے گئے اور جاتے وقت صرف ایک مشکیزہ پانی اور تھوڑی
سی کھانے کی کوئی چیز دے گئے۔ دو ایک دن بعد جب پانی اور غذا کا ذخیرہ ختم ہو گیا تو
دودھ پیتا بچہ، حضرت اسمعیل علیہ السلام، پیاس سے بے قرار ہو کر رونے چلانے لگا۔ حضرت
ہاجرہ پانی کی تلاش میں نکلتی ہیں۔ کسی طرف بھی پانی کے آثار نظر نہیں آتے۔ قریب ہی
ایک چٹان تھی، سوچا کہ اگر چٹان پر چڑھوں تو شاید ذرا دور سے جائزہ لے سکوں۔ صفا کا
پہاڑ ایک چھوٹی سی چٹان کی صورت میں اب بھی موجود ہے، اس پر چڑھتی ہیں، آس پاس نظر
ڈالتی ہیں، کہیں پانی نظر نہیں آتا۔ پھر دیکھتی ہیں کہ آگے ایک اور چٹان ہے جسے مروہ
کا پہاڑ کہا جاتا ہے، دوڑتی ہوئی وہاں جا کر اس کے اوپر چڑھتی ہیں۔ آس پاس دیکھتی ہیں
تو وہاں بھی کچھ میسر نہیں۔ماں کی مامتا مایوس نہیں ہوتی۔ واپس آتی ہیں بچے کو دیکھتی
ہیں پھر صفا پہاڑ پر چڑھتی ہیں پھر مروہ پر چڑھتی ہیں۔ کچھ نظر نہیں آتا۔ اس طرح سات
مرتبہ چکر لگاتی ہیں وہی سات کا ہندسہ جو ابدیت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ساتویں مرتبہ
جب بچے کے پاس آئیں تو دیکھا کہ بچے نے جہاں پیاس سے مجبور ہو کر اپنے ننھے سے پاؤں
کی ایڑیاں زمین پر ماری تھیں، وہاں سے ایک چشمہ (زمزمہ) پھوٹ پڑا اور پانی نکل آیا۔
اس سے زیادہ تفصیل غیر ضروری ہے۔ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنے کو ارکان حج میں
اس لیے شامل کیا گیا کہ یہ واقعہ ماں کی مامتا کی یادگار ہے اور ماں کی مامتا اس بے
پناہ شفقت و محبت کی علامت ہے جو خالق کو اپنی مخلوق کے ساتھ ہے۔ اس کے بعد حاجی مکے
سے عرفات کو جاتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں روایت کے مطابق جنت سے زمین پر آنے کے بعد
مدت کے بچھڑے ہوئے حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی حضرت حوا کی دوبارہ ملاقات
ہوئی تھی اور حضرت آدم علیہ السلام کا گناہ بھی اللہ تعالیٰ معاف کر دیتا ہے۔ نسل آدم
کے لیے ان کے جد اعلیٰ کی یہ سب سے اہم یادگار ہے۔ ہم بھی انہیں کی طرح خدا سے مغفرت
کی التجا کرتے ہیں۔ اس کے بعد منیٰ آتے ہیں۔ منیٰ کے متعلق روایت ہے کہ جب اللہ نے
آزمائش کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے اکلوتے بیٹے حضرت اسمعیل علیہ السلام
کو قربان کرنے کا حکم دیا تو انہوں نے اس حکم کی تعمیل منیٰ میں کی تھی۔ لکھا ہے کہ
وہ مکے سے اپنے بیٹے کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر چلے اور اللہ کے حکم سے بڑھتے بڑھتے
مکے سے آگے تقریباً تین میل کے فاصلے پر منیٰ پہنچے۔ شیطان نے جب اللہ کے ان بندوں
کو رضائے الٰہی کی طلب میں سخت ترین آزمائشوں سے بھی بڑی خوشی سے گزرتے دیکھا تو انہیں
بہکانے کے لیے انسان کی شکل میں نمودار ہوا۔ اولاً حضرت ابراہیم علیہ السلام سے یہ
کہا کہ تم نے خواب کی بات پر کیسے یقین کر لیا کہ اللہ تمہیں ایسا حکم دے رہا ہے۔ ممکن
ہے خواب میں شیطان آیا ہو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی فراست نبوی سے فوراً پہچان
جاتے ہیں کہ یہ شیطان ہے۔ چنانچہ مٹھی بھر سنگریزے زمین سے اٹھا کر اس کو پھینک مارتے
ہیں۔ شیطان بھاگ کر غائب ہو جاتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد ایک نئی شکل میں پھر آتا ہے اور
اس بار حضرت ہاجرہ کے پاس پہنچتا ہے اور کہتا ہے مائی تیرا شوہر تیرے اکلوتے بیٹے کو
قتل کرنا چاہتا ہے لیکن حضرت ہاجرہ بھی شیطان کو پہچان جاتی ہیں، وہ بھی پتھریاں اٹھا
کر مارتی ہیں اور اسے وہاں سے بھاگنے پر مجبور کرتی ہیں۔ شیطان غائب ہو جاتا ہے۔ پھر
اس ننھے بچے حضرت اسمعیل علیہ السلام کے پاس آ کر کہتا ہے کہ منے تیرا باپ تیری گردن
پر چھری پھیرنا چاہتا ہے، اس سے بہت تکلیف ہوتی ہے، باپ سے کہہ دو میں یہ نہیں چاہتا۔
کم عمری کے باوجود حضرت اسمعیل علیہ السلام میں نبوت کی فراست تھی۔ انہوں نے بھی شیطان
کو پتھریاں پھینک کر بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ اس کے بعد کے واقف سے آپ واقف ہیں۔ حضرت
ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسمعیل علیہ السلام کو زمین پر منہ کے بل لٹاتے ہیں۔ اپنی
آنکھوں پر ایک پٹی باندھتے ہیں اور پورے عز م و استقلال سے بیٹے کی گردن پر چھری چلا
دیتے ہیں۔ پھر پٹی کھولتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ بیٹا تو کھڑا مسکرا رہا ہے اور
اس کی جگہ ایک بھیڑ یا بکری تھی،جو ذبح ہو گئی تھی۔ اللہ کو تو حضرت ابراہیم علیہ السلام
کا امتحان لینا مقصود تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ میں رضائے الٰہی پر ہر چیز قربان
کر دوں گا۔ اللہ نے انہیں سخت ترین آزمائش میں ڈالا کہ بڑی منتوں اور مرادوں کے بعد
تقریباً سو سال کی عمر میں جو پہلا بیٹا پیدا ہوا، اسی کو ذبح کرنے کا حکم دیا۔ بندگی
اور حق پرستی کا یہ کمال دیکھئے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس آزمائش میں بھی پورے
اترے۔ سنت ابراہیمی کی ادائیگی کے لیے ہم منیٰ میں شیطان کو کنکریاں مارتے ہیں اور
قربانی کرتے ہیں۔ یہ بھی ارکان حج میں شامل ہے۔ جن تین مقامات پر شیطان پر کنکریاں
پھینکی جاتی ہیں اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل میں جو شیطانی
وسوسے آڑے آتے ہیں ان کا مقابلہ کریں۔
مذہب کی قبر کی زیارت کرنا ہے یا مظاہر قدرت اور عجائبات میں سے کسی بہت ہی عجیب چیز
کی زیارت کرنا ہے، چنانچہ ہندو دریائے گنگا کے منبع کی زیارت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں
کہ اس میں بڑا ثواب ہے۔ دریائے گنگا اور جمنا کا سنگم، جو الہ آباد کے مقام پر ہے،
اس کی زیارت میں بڑا ثواب سمجھتے ہیں۔ اسی طرح عیسائیوں کے ہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام
کی جو مبینہ قبر ہے، ہر چند کہ وہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر جا
چکے ہیں اور قبر خالی ہے، لیکن ان کے نزدیک اس قبر کی زیارت کرنا بہت ثواب کا کام ہے۔
عام عیسائی جو بیت المقدس نہیں جا سکتے ہیں، وہ سینٹ پیٹر کی قبر کی، جو ویٹیکن اٹلی
میں ہے، زیارت کرنا ثواب سمجھتے ہیں اور مذہب کے نام تک سے نفرت کرنے والے کمیونسٹ
جب انگلستان جاتے ہیں تو ان کے نہایت ہی محترم افراد مثلاً وزیر اعظم اور وزیر خارجہ
بھی کارل مارکس کی قبر کی زیارت کو ضرور جاتے ہیں، جو انگلستان میں دفن ہے۔ گویا ان
کے ہاں بھی حج پایا جاتا ہے لیکن یہ سارے حج یا تو مظاہر قدرت کے کسی مقام کی زیارت
یا اپنے کسی مقدس آدمی کی قبر کی زیارت پر مشتمل ہیں۔ مسلمانوں کا حج ان سب سے مختلف
ہے اور وہ ہے اللہ کے گھر کی زیارت۔ اس کے حضور میں، اس کے مکان میں حاضر ہو کر باریابی
حاصل کرنا۔ کعبے کو علامتی طور پر بیت اللہ کہا جاتا ہے۔ یہ ایک رمز ہے جس کی توجیہ
ان نوجوانوں کے لیے شاید دلچسپی کا باعث ہو جنہوں نے کبھی اس پہلو پر غور نہیں کیا۔
اللہ کے اسماء حسنیٰ ننانوے ہیں۔ قرآن مجید میں ایسے نام بھی ہیں جو اللہ کی صفات کے
مظہر ہیں مثلاً رازق، خالق وغیرہ وغیرہ، ان ناموں میں سے جو نام میری رائے میں انسان
اور خدا کے تعلق کی سب سے بہت نمائندگی کرتا ہے وہ نام ہے “ملک” بادشاہ جب
ایک نام کسی ایک غرض کے لیے منتخب کر لیا گیا تو انسانی سوسائٹی میں ان نام کے ساتھ
جو لوازم ہیں ان کو بھی قبول کرنا ہوگا۔ بادشاہ سے کچھ چیزیں خاص طور پر منسوب ہیں
مثلاً بادشاہ کا ایک تخت ہوتا ہے۔ قرآن میں اس کا ذکر آیا ہے خدا کا عرش ہے۔ عرش کے
معنی تخت کے ہیں۔ بادشاہ کے پاس فوجیں ہوتی ہیں (وَلِلَّهِ
جُنُودُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ) (4:48) (آسمانوں اور زمینوں
کی فوجیں اللہ ہی کی ہیں) بادشاہ کے پاس خزانے ہوتے ہیں (وَلِلَّهِ
خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ) (7:63) (زمین و آسمان
کے خزانے اللہ ہی کے ہیں۔ بادشاہ کے پاس ملک ہوتا ہے (وَلِلَّهِ
مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ) (189:3)۔ جب سلطنت کا رقبہ
وسیع ہو تو بادشاہ پایہ تخت یا صدر مقام تجویز کرتا ہے۔ پایہ تخت کے لیے انگریزی زبان
کے ایک لفظ سے آپ واقف ہوں گے (Metropolis)۔
یہ ایک یونانی لفظ ہے جس کے معنی ہیں “شہروں کی ماں” اس معنی میں قرآن
(92:6) کا لفظ ہے “ام القریٰ”
اور شہر مکہ “ام القریٰ”ہی کے نام سے مشہور ہے،
گویا اللہ کی سلطنت کا وہ صدر مقام ہے۔ جب ایک میٹروپولس یا ام القریٰ ہو تو وہاں بادشاہ
کا محل بھی ہوگا، چنانچہ بیت اللہ الحرام، اللہ کا مکان یا اللہ کا گھر وہاں پر موجود
ہے گویا کعبہ جو بیت الحرام ہے (قرآن 97:5) یہ اس بادشاہ کا محل ہے، کسی ملک میں بادشاہ
ہو تو یہ ہمیشہ رواج رہا ہے کہ رعایا کے نمائندہ پایہ تخت کو جا کر بادشاہ کے ہاتھ
پر بیعت کرتے اور اپنی اطاعت کا یقین دلاتے ہیں۔ حج کے سلسلے میں جب لوگ مکہ معظمہ
جاتے اور کعبے کے سامنے حاضر ہوتے ہیں تو وہ حجر اسود پر اپنا ہاتھ رکھتے ہیں اور حجر
اسود کو (اور اگر دور ہوں تو ہاتھ سے اشارہ کر کے اپنے ہاتھ کو) بوسہ دے کر طواف کا
آغاز کرتے اور اسے جاری کرتے ہیں۔ اس کو ہمارے فقہاء دو ناموں سے یاد کرتے ہیں۔ اسے
استلام بھی کہتے ہیں اور بیعت بھی کہتے ہیں۔ بیعت کے معنی ہیں اپنے آپ کو بیچ دینا۔
اپنے آپ کو (اللہ کے ہاتھ) فروخت کر دینا اور کہہ دینا کہ اے اللہ! میں اپنی ذات کو
تیرے سپرد کرتا ہوں۔ ہم اللہ سے ایک معاہدہ کرتے ہیں اور اس معاہدے کی تکمیل کرتے ہیں۔
معاہدے کرنے کا عام طور پر ایک طریق یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص دوسرے شخص کے ہاتھ پر اپنا
ہاتھ رکھتا تھا، چنانچہ ہم اپنا ہاتھ اللہ کے ہاتھ پر رکھتے ہیں۔ اس لفظ سے آپ گھبرائیے
نہیں کہ اللہ کے ہاتھ پر ہم اپنا ہاتھ رکھتے ہیں۔ ایک متواتر حدیث ہے جسے پانچ صحابہ
نے روایت کیا ہے۔ اس کے الفاظ ہیں الحجر الاسود یمین اللہ فی الارض (حجر اسود زمین
پر اللہ تعالیٰ کا دایاں ہاتھ ہے) چنانچہ اللہ کے دائیں ہاتھ پر ہم معاہدہ کرتے اور
بیعت کرتے ہیں۔ جب اپنی بیعت کے ذریعے سے اپنے بادشاہ کو ہم اطمینان دلا دیتے ہیں کہ
ہم اس کے سچے اور مخلص مطیع ہیں تو سب سے بڑا اعزاز، وہ مالک جو ہم کو عطا کر سکتا
ہے وہ یہ ہے کہ اپنے گھر کی پاسبانی کے لیے ہمیں اپنا سنتری بنائے۔ کعبے کے اطراف ہم
طواف کرتے ہیں یعنی بادشاہ کے گھر کی حفاظت کرتے ہیں۔ ساری عمر یا روزانہ چوبیس گھنٹے
پہرہ دینے کے بجائے سات مرتبہ طواف کرنا کافی قرار دیا گیا ہے۔ سات کا عدد رمزیہ یا
علامتی (Symbolic) ہے۔
چنانچہ وقت جس کی ابتداء معلوم ہے نہ انتہا، اس لامحدود شے کو جب ہم نے شمار کی غرض
سے محدود کرنا چاہا تو ہم نے سات ہی کا عدد استعمال کیا۔ ہفتے میں سات دن ہوں گے، وہی
سات دن بار بار اپنے آپ کو دہراتے رہیں گے اور بہت سی چیزیں مثلاً سبع السمٰوات وغیرہ۔
سات کا ہندسہ بطور رمز غیر محدود کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ لہذا اللہ کے گھر کی
پاسبانی کے لیے اگر ہم سات مرتبہ اس کے اطراف چکر لگائیں تو یہ ابدی طور پر اپنے فریضے
کی انجام دہی کے ہم معنی ہو جاتا ہے۔ قصر شاہی کی پاسبانی بڑا اعزاز ہے، اور انتہائی
قابل اعتماد سپاہیوں کو عطا کیا جاتا ہے کیونکہ بادشاہ کی جان و مال گویا ان سنتریوں
کے رحم و کرم پر منحصر ہوتی ہے۔ یہ گفتگو حج کے ایک جز یعنی کعبے کی زیارت اور کعبے
کے طواف کے متعلق تھی۔ لیکن حج میں کچھ اور چیزیں بھی ہیں۔ صفا اور مروہ کے درمیان
سعی کرنا اور چکر لگانا، اسی طرح عرفات کو جانا اور پھر منیٰ کو جانا۔ چند الفاظ میں
ان کے متعلق بھی عرض کروں کا کہ ان میں کیا رمز پایا جاتا ہے۔ صفا اور مروہ کے متعلق
آپ کو معلوم ہوگا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قصہ ہے۔ اللہ کے حکم سے حضرت ابراہیم
علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت اسمعیل علیہ السلام اور اپنی بیوی حضرت ہاجرہ کو ایک بے
آب و گیاہ صحرا میں تنہا چھوڑ کر چلے گئے اور جاتے وقت صرف ایک مشکیزہ پانی اور تھوڑی
سی کھانے کی کوئی چیز دے گئے۔ دو ایک دن بعد جب پانی اور غذا کا ذخیرہ ختم ہو گیا تو
دودھ پیتا بچہ، حضرت اسمعیل علیہ السلام، پیاس سے بے قرار ہو کر رونے چلانے لگا۔ حضرت
ہاجرہ پانی کی تلاش میں نکلتی ہیں۔ کسی طرف بھی پانی کے آثار نظر نہیں آتے۔ قریب ہی
ایک چٹان تھی، سوچا کہ اگر چٹان پر چڑھوں تو شاید ذرا دور سے جائزہ لے سکوں۔ صفا کا
پہاڑ ایک چھوٹی سی چٹان کی صورت میں اب بھی موجود ہے، اس پر چڑھتی ہیں، آس پاس نظر
ڈالتی ہیں، کہیں پانی نظر نہیں آتا۔ پھر دیکھتی ہیں کہ آگے ایک اور چٹان ہے جسے مروہ
کا پہاڑ کہا جاتا ہے، دوڑتی ہوئی وہاں جا کر اس کے اوپر چڑھتی ہیں۔ آس پاس دیکھتی ہیں
تو وہاں بھی کچھ میسر نہیں۔ماں کی مامتا مایوس نہیں ہوتی۔ واپس آتی ہیں بچے کو دیکھتی
ہیں پھر صفا پہاڑ پر چڑھتی ہیں پھر مروہ پر چڑھتی ہیں۔ کچھ نظر نہیں آتا۔ اس طرح سات
مرتبہ چکر لگاتی ہیں وہی سات کا ہندسہ جو ابدیت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ساتویں مرتبہ
جب بچے کے پاس آئیں تو دیکھا کہ بچے نے جہاں پیاس سے مجبور ہو کر اپنے ننھے سے پاؤں
کی ایڑیاں زمین پر ماری تھیں، وہاں سے ایک چشمہ (زمزمہ) پھوٹ پڑا اور پانی نکل آیا۔
اس سے زیادہ تفصیل غیر ضروری ہے۔ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنے کو ارکان حج میں
اس لیے شامل کیا گیا کہ یہ واقعہ ماں کی مامتا کی یادگار ہے اور ماں کی مامتا اس بے
پناہ شفقت و محبت کی علامت ہے جو خالق کو اپنی مخلوق کے ساتھ ہے۔ اس کے بعد حاجی مکے
سے عرفات کو جاتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں روایت کے مطابق جنت سے زمین پر آنے کے بعد
مدت کے بچھڑے ہوئے حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی حضرت حوا کی دوبارہ ملاقات
ہوئی تھی اور حضرت آدم علیہ السلام کا گناہ بھی اللہ تعالیٰ معاف کر دیتا ہے۔ نسل آدم
کے لیے ان کے جد اعلیٰ کی یہ سب سے اہم یادگار ہے۔ ہم بھی انہیں کی طرح خدا سے مغفرت
کی التجا کرتے ہیں۔ اس کے بعد منیٰ آتے ہیں۔ منیٰ کے متعلق روایت ہے کہ جب اللہ نے
آزمائش کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے اکلوتے بیٹے حضرت اسمعیل علیہ السلام
کو قربان کرنے کا حکم دیا تو انہوں نے اس حکم کی تعمیل منیٰ میں کی تھی۔ لکھا ہے کہ
وہ مکے سے اپنے بیٹے کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر چلے اور اللہ کے حکم سے بڑھتے بڑھتے
مکے سے آگے تقریباً تین میل کے فاصلے پر منیٰ پہنچے۔ شیطان نے جب اللہ کے ان بندوں
کو رضائے الٰہی کی طلب میں سخت ترین آزمائشوں سے بھی بڑی خوشی سے گزرتے دیکھا تو انہیں
بہکانے کے لیے انسان کی شکل میں نمودار ہوا۔ اولاً حضرت ابراہیم علیہ السلام سے یہ
کہا کہ تم نے خواب کی بات پر کیسے یقین کر لیا کہ اللہ تمہیں ایسا حکم دے رہا ہے۔ ممکن
ہے خواب میں شیطان آیا ہو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی فراست نبوی سے فوراً پہچان
جاتے ہیں کہ یہ شیطان ہے۔ چنانچہ مٹھی بھر سنگریزے زمین سے اٹھا کر اس کو پھینک مارتے
ہیں۔ شیطان بھاگ کر غائب ہو جاتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد ایک نئی شکل میں پھر آتا ہے اور
اس بار حضرت ہاجرہ کے پاس پہنچتا ہے اور کہتا ہے مائی تیرا شوہر تیرے اکلوتے بیٹے کو
قتل کرنا چاہتا ہے لیکن حضرت ہاجرہ بھی شیطان کو پہچان جاتی ہیں، وہ بھی پتھریاں اٹھا
کر مارتی ہیں اور اسے وہاں سے بھاگنے پر مجبور کرتی ہیں۔ شیطان غائب ہو جاتا ہے۔ پھر
اس ننھے بچے حضرت اسمعیل علیہ السلام کے پاس آ کر کہتا ہے کہ منے تیرا باپ تیری گردن
پر چھری پھیرنا چاہتا ہے، اس سے بہت تکلیف ہوتی ہے، باپ سے کہہ دو میں یہ نہیں چاہتا۔
کم عمری کے باوجود حضرت اسمعیل علیہ السلام میں نبوت کی فراست تھی۔ انہوں نے بھی شیطان
کو پتھریاں پھینک کر بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ اس کے بعد کے واقف سے آپ واقف ہیں۔ حضرت
ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسمعیل علیہ السلام کو زمین پر منہ کے بل لٹاتے ہیں۔ اپنی
آنکھوں پر ایک پٹی باندھتے ہیں اور پورے عز م و استقلال سے بیٹے کی گردن پر چھری چلا
دیتے ہیں۔ پھر پٹی کھولتے ہیں تو کیا دیکھتے ہیں کہ بیٹا تو کھڑا مسکرا رہا ہے اور
اس کی جگہ ایک بھیڑ یا بکری تھی،جو ذبح ہو گئی تھی۔ اللہ کو تو حضرت ابراہیم علیہ السلام
کا امتحان لینا مقصود تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ میں رضائے الٰہی پر ہر چیز قربان
کر دوں گا۔ اللہ نے انہیں سخت ترین آزمائش میں ڈالا کہ بڑی منتوں اور مرادوں کے بعد
تقریباً سو سال کی عمر میں جو پہلا بیٹا پیدا ہوا، اسی کو ذبح کرنے کا حکم دیا۔ بندگی
اور حق پرستی کا یہ کمال دیکھئے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس آزمائش میں بھی پورے
اترے۔ سنت ابراہیمی کی ادائیگی کے لیے ہم منیٰ میں شیطان کو کنکریاں مارتے ہیں اور
قربانی کرتے ہیں۔ یہ بھی ارکان حج میں شامل ہے۔ جن تین مقامات پر شیطان پر کنکریاں
پھینکی جاتی ہیں اس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل میں جو شیطانی
وسوسے آڑے آتے ہیں ان کا مقابلہ کریں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭