ڈاکٹر محمد حمید اللہ کا مکتوب بنام مدیر ماہنامہ معارف اعظم گڑھ ۔ دسمبر 1960ء
اتوار 12 ربیع الاول 1380ھ باریس
مخدوم و محترم-سلام مسنون
رسالہ معارف کی جلد (85) میں فاضل محترم اطہر مبارکپوری نے مسلسل دو قسطوں میں عرب و ہند کے قدیم علمی و ثقافتی تعلقات کے عنوان سے جدید دریافت و شائع شدہ نادر کتاب الذخائر و التحف للقاضی الرشید بن الزبیر پر تبصرہ فرمایا اور اقتباسات کا ترجمہ کیا ہے۔ فاضل مقالہ نگار کی دو چیزیں پر کچھ عرض کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔
وہ لکھتے ہیں کہ القاضی الرشید نامعروف نہیں ہے بلکہ محترم پروفیسر عبد العزیز میمنی صاحب نے اس کا حال کئی کتابوں میں پایا ہے۔ قصہ یہ ہے کہ ابن خلکان اور یاقوت نے جس القاضی الرشید کا ذکر کیا ہے اس کی وفات 561ھ یا 562ھ میں ہوئی ہے اور ہماری کتاب کی اندرونی شہادت یہ ہے کہ اس کا مولف اس سے تقریباً ایک صدی قبل فوت ہو چکا ہے، ابن خلکان میں القاضی الرشید بن القاضی الرشید بن القاضی الرشید کا ذکر ہے۔ میرا گمان ہے کہ ہماری کتاب پوتے کی نہیں بلکہ دادا کی ہے (لیکن دادا کے حالات نہیں ملتے) کتاب میں میرے دیباچے کے الفاظ کا یہی منشا ہے۔
اسی طرح وہ راجا دھمی یا رہمی پر قطعی فیصلہ صادر کردیتے ہیں کہ اسے کیا پڑھنا چائیے اور وہ کون ہے، میں نے بہ کثرت تحقیقی مقالوں کے حوالے دیے ہیں کہ وہ فضلا بھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے اور نہیں بتا سکے کہ اس معرب لفظ کی اصل کیا ہے اور اس کا کس تاریخی شخص پر اطلاق ہونا چائیے؟ اگر محترم مبارکپوری صاحب ان سارے مقالوں کو پڑھ اور ان کے دلائل کی تنقید کر کے کوئی فیصلہ صادر فرمائیں تو علم کی بڑی خدمت ہو گی اور ایک دیرینہ بحث ختم سکے گی۔ ظاہر ہے کہ محض دعوی کافی نہیں، دلائل کی ضرورت ہے۔
مولانا عبد الماجد دریابادی کے ایک پارۂ تحریر کی مجھے حال میں کترن ملی ہے، مخدوم محترم فرماتے ہیں کہ مجھ ناچیز کی فرانسیسی سیرت نبویہ کا اردو ترجمہ ہونا چائیے، یہ میری عزت افزائی ہے، لیکن ناظرین معارف سے عرض ہے کہ (1) اگر مولف اپنی تحریروں کا ترجمہ بھی خود کرنے لگے تو اسی کے تکمیل طلب اور تدوین شدنی کاموں کو کون کرے گا؟ یوں بھی (2) اس کتاب کابڑا حصہ میرے ان مضامین کی نظرثانی پر مشتمل ہے جو معارف وغیرہ میں چھپے ہیں اور پھر عہد نبوی کا نظام حکمرانی اور رسول اکرم کی سیاسی زندگی نامی کتابوں میں داخل ہوئے ہیں۔ اس میں شک نہیں نظرثانی و ترمیم بھی ہوئی ہے اور بعض نئے ابواب کا بھی اضافہ ہوا ہے مثلاً فینانس، نظام فوج، ارتقا، سرحدات، مملکت و تقسیم صوبہ جات و اضلاع وغیرہ۔ کتاب بڑی تقطیع کے کوئی آٹھ سو صفحوں میں چھپی ہے۔ اس ضخیم ترجمے کے کام کو بہرحال کوئی انجام دینا چاہے تو میں یہ مدد ضرور دے سکتا ہوں کہ (بشرط حیات و صحت) ترجمے کی نظر ثانی کر کے یہ بتا سکوں کہ آیا کہیں مضمون سمجھنے میں کوئی غلطی تو نہیں ہوئی ہے۔ ویسے متعدد تالیفوں کا کام فی الوقت جاری ہے اور ان کو چھوڑ کر ترجمے میں لگنے کا کوئی سوال نہیں ہے۔
آخر میں یہ عرض ہے کہ چند سال قبل رسالۂ معارف نے مجھ سے پوچھا تھا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے کے نسخۂ قرآن کی موجودگی کی کیا حقیقت ہے؟ اس پر میرا جواب بھی چھپا تھا کہ اس کا عکس لے کر زار روس نے چھاپا تھا، اب اس کی کچھ مزید تفصیلیں بھی ملی ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس کا نسخہ برٹش میوزیم میں نہیں ہے (جیسا کہ میں نے لکھا تھا) بلکہ ڈرہام یونیورسٹی میں ہے، میں نے اس کا میکرو فلم منگایا ہے، اگر آئے تو ان شاءاللہ کچھ تفصیل آئندہ عرض کر سکوں گا۔
موتمر مستشرقین ماسکو پر ایک تبصرہ ارسال خدمت ہے۔ فقط نیاز مند
محمد حمید اللہ
ماخذ: ماہنامہ معارف اعظم گڑھ دسمبر 1960ء