ڈاکٹر محمد حمید اللہ کا مکتوب بنام مدیر ماہنامہ معارف اعظم گڑھ ۔ فروری 1986ء
5 جنوری 1986ء
مخدوم و محترم مدفیضکم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
کل شام ستمبر 1985ء کا معارف ملا۔ رات کو ورق گردانی کی، سب ہی مضامین دلچسپ ہیں۔ برک اللہ۔
الف: وراقت کا مضمون ابھی مکمل نہیں ہوا ہے، احتیاطاً ایک چیز کا ذکر کرتا ہوں۔ گوٹن برگ (فوت 1468ء) فن طباعت کا موجد مانا جاتا ہے۔ حال میں مجھے پتہ چلا کا ویانا (آسٹریا) کے کتب خانۂ عام میں ایک ٹکڑا قرآن مجید کا موجود ہے جو گوٹن برگ سے پانچ سو سال قبل سلجوقی دور میں (غالبا مصر میں) چھپا ہے۔ اور یہ تاریخ فرنگی محققوں نے بیان کی ہے۔ آسٹریا کو فوراً خط لکھ کر اس کا فوٹو منگایا، واقعی قابل دید اور قابل ذکر چیز ہے۔ میں اسے اپنے فرانسیسی مقالے تاریخ خط عربی میں چھاپ بھی رہا ہوں۔ اطلاطاً عرض ہے۔
ب: یہ سب جانتے ہیں کہ صلح حدیبیہ سے واپسی پر رسول اکرم صل اللہ علیہ والہ وسلم نے ہمسایہ سلاطین کو تبلیغی خط لکھے، یہ 6ھ کے اواخر کا واقعہ ہے اس میں دو نکتوں پر توجہ دلانے کی اجازت چاہتا ہوں:
پہلا: اس پر سال رواں میں 1400 سال گزر رہے ہیں۔
دوسرا: رسول اکرم صل للہ علیہ وسلم نے ایک وقت میں تین براعظموں پر اپنی تبلیغی سرگرمیوں کو وسعت دی، یورپی حکمران ہرقل، ایشیائی حکمران کسری پرویز اور افریقی حکمران اصحمہ نجاشی کو خط لکھے۔
ج: شاید یہ بھی کہ صلح حدیبیہ کو قرآن مجید نے فتح مبین اور نصرعزیز کا نام دیا ہے، حصرت عمر جیسا فرد بھی اس وقت اس کو سمجھ نہ سکا اور رسول اللہ علیہ والہ وسلم سے جاکر تشویش سے پوچھا تھا۔ یہ اہانت آمیز صلح کیوں؟ حضور صل للہ علیہ والہ وسلم نے راز فاش کرنا نہ چاہا امام شمس الائمہ سرخسی نے اپنی کتاب المبسوط اور شرح السیر الکبیر میں اس کا راز بتایا ہے کہ خیبر کی مجوزہ مہم کے وقت قریش کی غیر جانبداری و ناطرف داری کے حصول کے لیے تھا۔
ناچیز
محمد حمید اللہ
ماخذ: ماہنامہ معارف اعظم گڑھ، فروری 1986ء