ڈاکٹر محمد حمید اللہ کا مکتوب بنام مدیر ماہنامہ معارف اعظم گڑھ ۔ مئی 1950ء
مخدوم و محترم
سلام ممنون نیاز مندانہ و رحمتہ اللہ و برکاتہ۔ ایک اور مضمون ملفوف ہے، مناسب ہو تو شائع فرما دیا جائے، گزشتہ مضمون سنا کہ شائع ہوا اگرچہ تاحال پڑھنے یا دیکھنے میں نہیں آیا، خیر اسے کوئی اہمیت نہیں غرض تو اشاعت و اطلاع تھی۔
گزشتہ دو سال سے معارف دیکھنے کو ترستا تھا ابھی حال میں ایک دوست کے یہاں ان شماروں کا بڑا حصہ دیکھنے میں آیا، اور دل بھر آیا، مسرت نہ صرف اس عزیز دور افتادہ دوست سے مکرر ملنے پر ہوئی بلکہ اس پر بھی کہ معیار اگر بلند نہیں ہوا تو ماشاءاللہ پرانا معیار برقرار ضرور ہے۔ مولانا عبد السلام صاحب کا دلچسپ مضمون طب پر دیکھ کر مستفید ہوا۔ انھوں نے ابن سمحون کا خاصا ذکر کیا ہے، لیکن اس کی کتاب بہ ظاہر ان کی دانست میں مفقود ہے۔ الحمد اللہ اس کے بڑے حصے کا بھی پتہ چل گیا ہے اس کی تالیف الجامع الاقوال الحکماء۔۔۔۔۔فی الاادویہ المفردۃ کی دو جلدیں میں نے اوکسفرڈ کے کتب خانہ میں باڈلیان میں دیکھیں اور معلوم ہوا تھا کہ کچھ اور جلدیں بھی حال میں برٹش میوزیم میں آئی ہیں۔ تادم تحریر آخر الذکر کے مطالعہ کا موقع نہ ملا، اوکسفرڈ کا مخطوط نہایت قدیم، نہایت خوشخط اور خط کوفی (مراکشی، مغربی) میں ہے۔ اس کا نہج وہی ہے جو بعد میں ابن البیطار کے ہاں ملتا ہے اور سب کو معلوم ہے کہ مختلف بوٹیوں کو حروف تہجی پر مرتب کر کے ان کے متعلق مختلف قدیم و ہمعصر مؤلفوں کے بیانات یکجا جمع کر دیئے ہیں۔ اس میں بھی دینوری پر سب سے زیادہ اعتماد کیا گیا ہے۔ یہ کتاب بھی اس قابل ہے کہ اسے شائع کیا جائے۔ ہماری علمی میراث میں اسے اہم درجہ حاصل ہے۔
ایک اور بھی وجہ مسرت:
مجھے یاد نہیں کبھی اس سے پہلے مولانا ابو الجلال ندوی کی میں نے کوئی چیز پڑھی ہو۔ گزشتہ دو سال میں ان کے جو مضمون چھپے ہیں اس سے ایسا معلوم ہوا کہ آسمان علم پر ایک نیا کوکب دوری ایک درخشاں تارہ نمودار ہو گیا ہے، خدا اسے بہت دن تاباں رکھے، ان کی تحقیقات قابل رشک ہیں، اگر وہ کبھی کبھی فرانسیسی، جرمن میں نہ سہی انگریزی ہی میں ان کے ترجمے یا خلاصے شائع کرائیں تو انھیں ہم فن زیادہ تعداد میں مل جائیں، انھوں نے ایک جرمن کتاب مولفہ دوزی (Die israeliten zu mekka) کا ذکر کیا ہے، اس کا صحیح تلفظ دی اسرائے لیتن تسومکہ ہے مولانا کی اعلام القرآن کا انتظار رہے گا، خدا کرے جلد تکمیل کو پہنچے اور یہ خدمت قرآن صاحب قرآن جل شانہ کے ہاں مقبول ہو۔
ابو محفوظ الکریم صاحب تفسیر طبری کے سلسلے میں مفید کام کر رہے ہیں، ایک چیز ذہن میں آتی ہے ان کے غور کے لیے عرض ہے، تفسیر طبری اپنے موضوع پر ایک انسائیکلوپیڈیا ہے، اس سے سات تو کیا ستر کتابیں مستقل اخذ کی جا سکتی ہیں لیکن وہ اس طرح نئی کتابیں شائع کرنے کی کوشش کرنے کی جگہ محض اشاریے یا انڈیکس شائع کر دی تو کم خرچ اور زیادہ مفید ہوں۔ تفسیر طبری اس وقت جن لوگوں کے پاس ہے ان کے لیے سات اور کتابیں خریدنا ایک طرح سے تحصیل حاصل ہو گا۔ مولوی ابو محفوظ الکریم صاحب نے جو سات عنوان تجویز کیے ہیں انھیں یہ مجوزہ انڈیکس مرتب کر کے یہ بھی بتاتے جائیں کہ وہ لفظ کس کس سورت اور کس آیت میں ہے، نیز طبری کی کس کس جلد اور کس کس صفحے میں کن سطروں میں ہے۔ یہی حال اعراب القرآن، بلاغات القرآن وغیرہ کا ہے، جو انڈکس میں الگ الک ابواب میں آ سکتے ہیں۔ طبری کی عبارتوں کو دہرانے کی ضرورت نہ ہو گی یوں بھی طبری کا ایک ہی فقرہ ممکن ہے متعدد ابواب سے متعلق ہو اور اس طرح باربار نقل دہرانے سے تیس جلد کی تفسیر طبری کا اقتباس شاید ساٹھ جلدوں میں ہو جائے، موصوف کی فہرست میں کم از کم چار عنوانوں کا اضافہ مناسب ہو گا۔
(1)۔ آدمیوں کے نام (2) مقاموں کے نام (3) کتابوں کے نام (4) اشعار شواہد کی یکجائی یا کم از کم صدر بیت مع فافیہ بتا کر تفصیل۔ اس طرح کے جامع اشاریے سے اہل علم کو بڑی سہولت ہو گی اور وہ اس خدمت کو سر آنکھوں پر رکھیں گے۔ چند سال قبل سنا تھا کہ ڈاکٹر محمد زبیر صدیقی اسی طرح کا کام کر رہے یا کرنے والے تھے، انھوں نے غالبا اس پر کوئی مضمون بھی لکھا کہ اہل علم کی رائے طلب کی تھی، اگر یہ کام ایک اکیلے آدمی کے لیے بہت وقت لینے والا ہو تو کام کا خاکہ طے کر کے پانچ دس موزوں و مستفید افراد میں بانٹ دیا جا سکتا ہے اور نتیجہ ہند ہی نہیں عربی، فارسی ممالک میں بھی خوش آمدید ہو گا، طبری کے دل سے بھی دعا نکلے گی۔
واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
ماخذ: ماہنامہ معارف اعظم گڑھ بابت مئی 1950ء