ڈاکٹر محمد حمید اللہ کا مکتوب بنام مدیر ماہنامہ معارف اعظم گڑھ ۔ مئی 1988ء
اسلاملک سینٹرل کلچر، پیرس
یکم مارچ 1988ء
مخدوم و محترم- السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
24 فروری کا نوازش نامہ آج ملا، سرفراز بھی ہوا، شرمندہ بھی، مجھے صباح الدین صاحب کی شہادت کی جیسے ہی اطلاع ملی تھی میں نے ڈاکٹر سید سلمان ندوی صاحب کو ڈربن تعزیتی خط لکھا تھا کہ کسی اور قریبی رشتہ دار سے واقف نہ تھا۔
میں نے معارف کو یا دارالمصنفین کو اس لیے نہیں لکھا کہ اس کی طباعت و اشاعت کا ڈر تھا، مجھے یہ چیز پسند نہیں۔ میری خیال آرائی کو اہمیت بھی کیا ہے؟ اگر مرحوم کی سوانح عمری لکھوں تو الگ بات ہے اور یہ ناممکن ہے کہ کیوں کہ اس کا کوئی مواد میرے پاس نہیں۔ خیال فرمائیے کہ مرحوم سے ساری عمر میں صرف دو بار ملاقات ہوئی ہے ایک اعظم گڑھ میں جنگ کے دوران میں اور دوسری حال میں کوئی چالیس سال کے وقفے سے، کبھی نجی خط کتابت بھی نہیں رہی بجز معارف کے۔
میں معارف کو دنیا کا سب سے بلند پایہ علمی رسالہ سمجھتا ہوں، اس میں کچھ چھپنا میرے مضمون کی عزت افزائی ہے۔ زندگی ہے تو سابق کی طرح آئندہ بھی ضرور لکھوں گا (ان شاء اللہ) مگر قریبی فرصت میں نہیں کہ آج کل دیگر کاموں میں غرق ہوں (واقعی غرق ہوں) کبھی کبھی ڈاک پہ ڈاکہ پڑتا ہے ورنہ معارف برابر آتا ہے اور اس سے استفادہ کرتا رہتا ہوں۔ حفظکم اللہ وعافاکم
محمد حمید اللہ
ماخذ: ماہنامہ معارف اعظم گڑھ، مئی 1988ء