پہلا چھاپہ خانہ
پہلا چھاپہ خانہ۔
عام طور پر چھاپہ خانے کی ایجاد کا سہرا جرمن موجد گوٹن برگ (م 1468ء)کے سر باندھا جاتا ہے ،تاہم 1980 کے عشرے کے اوائل میں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ کے پروفیسر، ڈاکٹر قاضی عبدالقادر نے ایک مضمون ماہنامہ “سائنس ” کےلیے لکھا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ پرنٹنگ پریس کی ایجاد کو گوٹن برگ کے سر نہیں باندھا جا سکتا کیونکہ جرمنی میں چھاپے خانے کی ایجاد سے 500 سال قبل دنیائے اسلام میں مسلمان چھاپہ خانہ ایجاد کر چکے تھے۔ ڈاکٹر قاضی عبدالقادر نے اپنے مقالے میں آسٹریا کے محقق جوزف فان کرابیک کے حوالے سے آرچ ڈیوک رینار کے ذاتی کتب خانوں میں محفوظ قدیم مسلم صنعت و طباعت کے بیسیوں نمونوں کا ذکر کیا تھا، لیکن فان کرابیک کی تحقیق جلد ہی لوگوں نے بھلا دی۔اس کے بعد ایک امریکی محقق تھامس فرانیس کارور نے اپنی تصنیف مطبوعہ 1925 میں پھر اس طرف توجہ دلائی کہ گوٹن برگ کی ایجاد سے پہلے مسلم دنیا میں طباعت کا آغاز ہو چکا تھا، اپنی بات کے ثبوت میں اس نے کئی تحریری نمونوں کا ذکر کیا۔
ڈاکٹر قاضی عبدالقادر صاحب کا یہ مقالہ بھی زیادہ گردش نہ کر سکا۔
اس تحریر کے کئی سال بعد ممتاز محقق ڈاکٹر حمید اللہ نے 5 جنوری 1986 کو مدیر معارف، اعظم گڑھ کے نام ایک خط تحریر کیا جس میں چھاپے خانے سے متعلق اپنی معلومات تحریر کیں، اس خط سے یہ معلوم ہوا کہ جرمنی میں گوٹن برگ کے چھاپہ خانے کے آغاز سے تقریبا 500 سال پہلے سلجوقی دور میں تقریبا 1000ء میں مسلمان مطبع ایجاد کر چکے تھے۔پہلی مطبوعہ انجیل گوٹن برگ کے چھاپے خانے میں چودھویں صدی عیسوی میں طبع ہو رہی تھی لیکن اس سے 500 سال قبل ایک ہزار عیسوی میں قرآن مجید طباعت کی منزل سے گزر چکا تھا۔ڈاکٹر حمید اللہ کا یہ خط اعظم گڑھ سے شائع ہونے والے معارف کے شمارہ فروری 1986 میں شائع ہوا۔
بعد ازاں یہ خط جناب راشد شیخ کی مرتبہ کتاب ڈاکٹر حمید اللہ کے صفحہ 65۔۔464 پر شائع کیا گیا ۔اس خط میں حمید اللہ لکھتے ہیں:” حال ہی میں مجھے پتا چلا کہ ویانا(اسڑیا ) کے کتب خانہ عام میں ایک ٹکڑا قرآن مجید کا موجود ہے جو گوٹن برگ سے 500 سال قبل سلجوقی دور میں(غالبا مصر میں ) چھپا ہے، اور یہ تاریخ فرنگی محققوں نے بیان کی ہے۔آسٹریا کو فورا خط لکھ کر اس کا فوٹو منگوایا، واقعی قابل دید اور قابل ذکر چیز، میں اسے اپنے فرانسیسی مقالے”تاریخ خط عربی ” میں چھاپ بھی رہا ہوں۔اطلاعا تحریر ہے “
ہم ڈاکٹر قاضی عبدالقادر صاحب کا مضمون اور ڈاکٹر حمید اللہ کا خط، قند مکرر کے طور پر الایام کے آئندہ شمارے میں شائع کر رہے ہیں ان شا اللہ
نگار سجاد ظہیر