ممتاز عالم دین ڈاکٹر محمد حمید اللہ از احمد عطاء اللہ

ممتاز عالم دین ڈاکٹر حمید اللہ
از احمد عطاء اللہ

جناب احمد عطاء اللہ صاحب، ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم کے بھتیجے ہیں۔ ان کا یہ مفید مصمون رسالہ انوار نظامیہ، جامعہ نظامیہ حیدر آباد دکن میں شائی ہوا تھا۔ اس مضمون میں انھوں نے ڈاکٹر صاحب کے اجداد کے علمی کارناموں اور ڈاکٹر صاحب کی علمی خدمات پر مفید روشنی ڈالی ہے۔ 

چچا محترم ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کے علمی کارناموں کا ذکر کرنے سے پہلے ان کے اجداد کے علمی اور ادبی کارناموں کو مختصرا بیان کرنا مناسب سمجھتا ہوں، کیوں کہ اس خاندان کو یہ شرف حاصل ہے کہ کم از کم سترہ (17) پشتوں سے مسلسل سرزمین ہند میں مذہب اسلام کی خدمت کو اس خانوادے نے اپنا شعار بنائے رکھا ہے۔
سرزمین ہند میں اس خاندان کے جد اعلیٰ مخدوم فقیہ عطاء احمد شافعی ہیں۔ آپ سر زمین عرب سے یہاں آئے اور یہیں بودوباش اختیار کی۔ آپ کا مزار ساحل گجرات میں کچھ کے مقام پر ہے۔ آپ کے بعد اس خاندان کے افراد نے تلاش روزگار میں جنوب کی طرف رخ کیا۔ گوا، بیجہ پور، آرکاٹ، مدراس، اور حیدرآباد کو اپنا مسکن بنایا۔ تقسیم ہند کے بعد اس خانوادہ کے بعض افراد افریقا اور عربستان کو ہجرت کر گئے اور اب اعلیٰ تعلیم اور حصول معاش کے سلسلہ میں ہندوستان کے باہر مختلف مقامات پر سکونت اختیار کئے ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کے تمام اجداد کے علمی کارناموں کے بارے میں اظہار خیال اس وقت تو ممکن نہیں ہے کیوں کہ یہ مختصر مضمون اتنی طوالت کی اجازت نہیں دیتا۔ اس لیے میں صرف ڈاکٹر صاحب کے پڑدادا مولوی محمد غوث شرف المک بہادر کی حیات و علمی کاناموں پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کے بیٹوں اور پوتوں کے حالات پر اکتفا کرتا ہوں۔
مولوی محمد غوث شرف المک بہادر 17 رمصان 1166ھ میں ارکاٹ میں پیدا ہوئے۔ پہلے علم حدیث و فقہ کی تعلیم اپنے دادا نظام الدین احمد صفیر سے حاصل کی۔ ان کے انتقال کے بعد رامنات روانہ ہوئے جہاں مشہور عالم دین مولوی امین الدین احمد خان بہادر سے فیض حاصل کیا۔ آپ وہاں چار سال تک نہ صرف تعلیم حاصل کرتے رہے بلکہ ان کی اور دوسروں کی تصانیف کو نقل بھی کرتے رہے۔ علم مناطرہ کی مشہور کتاب الادب الباقیہ فی شرح الرسالۃ التعیۃ لعبد الباقی بن غوث الاسلام الصدیقی کو اپنے ہاتھ سے نقل کیا اور اس کو سبقا سبقا مولوی امین الدین صاحب سے پڑھا۔ جب سنہ 1195ھ میں مولوی امین الدین صاحب خان بہادر کا انتقال ہو گیا تو آپ نے مولوی ولی اللہ بن محمد عبد العظیم الباری سے جو ترچنا پلی میں رہتے تھے۔ تصوف اور سلوک کی تعلیم حاصل کی، اور پھر مدراس واپس آ کر مولانا شیخ ملک العلماء عبد العلی بحرالعلوم کے زمرہ شاگردان میں داخل ہوئے۔ مدراس میں آپ نواب امیر الامراء ابن نواب والا چاہ رئیس کرناٹک کی رفاقت میں تھے اورنواب صاحب کے فرزند عظیم الدولہ کو تعلیم دیتے تھے۔ آپ کے والد ناصر الدین محمد کی وفات کے بعد آپ کو دروغہ عدالت یعنی منقذ احکام شریعت کی خدمت پر مستقل مامور کیا گیا۔ جب نواب عمدۃالامراء کا عہدہ آیا تو آپ خدمت مذکور اپنے بھائی کے سپرد کر کے سدہوٹ پہنچے اور وہاں سے سنہ 1213ھ میں حیدرآباد پہنچے اور میر عالم ارسطو جاہ سے ملاقات کی لیکن ملازمت حاصل نہ ہو سکی۔ ایک اہل عرفان نے ان کو مخاطب کر کے کہا کہ تمہارا یہاں کوئی مقام نہیں ہے آپ یہاں سے نکل کر اودگیر پہنچے اور وہاں ایک سال قیام کیا۔ آپ کے شاگرد نواب عظیم الدولہ نے آپ کو مدراس آنے کی دعوت دی۔ چنانچہ یکم جمادی الاول 1216ھ کو مدار المہامی کی خدمات تفویض کر کے ایک سو تیس روپے تنخواہ مقرر کی اور 17 ذی قعدہ 1219ھ کو شرف المک شرف الدولہ مولوی محمد غوث خان بہادر غالب جنگ کا خطاب عطا کیا۔آپ ملازمت پر زیادہ دن فائز نہ رہے اور 11 رمضان المبارک 1223ھ کو خدمت سے استعفا دے کر تصنیف و تالیف میں مشغول ہو گئے۔ انگریزوں نے آپ کو ایران میں سفیر بنا کر بھیجنا چاہا لیکن آپ نے اس کو قبول نہیں کیا۔ نواب عظیم الدولہ اور انگریزوں کے درمیاں میں آپ ہی کے توسط سے گفت و شنید ہوا کرتی تھی۔ نواب عظیم الدولہ نے کسی خاص کام کے سلسلہ میں آپ کو ایک لاکھ روپے انعام دینا چاہا تو آپ نے رقم کی بجائے قاموس فیروزآبادی کا نسخہ مانگ لیا جو آج بھی ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کے کتب خانہ میں محفوط ہے۔ اس نسخہ کو محمد بن الشیخ حجر الشافعی نے صفحہ صفحہ سطر سطر کر کے اصل نسخہ سے مقابلہ کیا ہے۔ شریف مکہ کی جانب سے یہ نسخہ سلطان روم کو بطور تحفہ دیا گیا تھا وئیں سے یہ نسخہ اورنگ آباد اور پھر کتب خانہ والا جاہی میں مولانا آزاد بلگرامی کے ذریعہ پہنچا۔
شرف الملک کا انتقال 11 صفر 1238ھ کو ہوا اور مسجد والا جاہی میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔ آپ کی کئی تصانیف بزبان عربی و فارسی ہیں جن میں سے چند طبع ہوئی ہیں۔ نثر المرجان فی رسم نظم القرآن (سات جلدوں میں مطبوعہ)، نھور الفوائد و بحور الفرائد فی الفرائض (مطبوعہ)، فوائد البصوفیۃ شرح الفرائض الرحیہ، سواطع الاونار فی معروفتہ اوقات الصلاۃ والاسحار، بسط الیدین لاکرام انبوین، ارجوزۃ فی القاب سیدنا علی کرم اللہ وجھہ، کفایۃ المبتدی فی فقہ الشافی، زواجر الارشاد الی دار الجھاد، تعلیقات علی مختصر ابی شجاع، تعلیقات شرح قطر الدنی، مسائل فی فقہ شافعی، کافی مختصر کافیہ، حواشی قاموس، شافعی شرح کافی النحو، النجم الوقاد شرح قصیدہ بانت سعاد، وسائل التبرکات شرح دلائل الخیرات۔
فارسی مطبوعہ: انہار المفاخر فی مناقب سیدنا عبد القادر، بسائم الازہار فی الصلوۃ علی سید الابرار، خلاصہ البیان شرح عقیدہ عبد الرحمن جاقی، برہان الحکمہ ترجمہ ہدایہ الحمکہ (غیر مطبوعہ)، یواقیت المنثورت فی الاذکار الماثورۃ، ہدایۃ الفوی الی النہج السوی فی طب النبی، خواص الحیوان، رشحات الاعجاز فی تحقیق الحقیقہ المجاز، رسالہ در درخواجہ کمال الدین خان، امدن، برہان الحکمت ترجمہ ہدایہ الحکمت، فتاوی ناصریہ فی فقہ حنفیہ، زبدۃ العقائد، بسام الناقرۃ فی عیون الناظرۃ۔ (اردو): رسالہ فقہ در مذہب حنفی۔
آپ کے بڑے فرزند مولوی عبد الوہاب مدار الامراء دیوان ریاست کرناٹک تھے۔ نصیر الدین ہاشمی صاحب انھیں کی اولاد سے ہیں۔ دیوان صاحب 5 جمادی الاول 1208ھ کو مدراس میں پیدا ہوئے اور 5 ربیع الاول 1285ھ کو انتقال ہوا۔ عربی اور فارسی کی کتابیں کے مصنف ہیں۔ محمد غوث شرف المک کے دوسرے صاحبزادے محمد صبغت اللہ قاضی المک بدالدولہ ہیں جو ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب کے دادا ہیں۔ قاضی بدالدولہ 5 محرم 1211ھ میں مدراس میں تولد ہوئے۔ آثھ سال کی عمر میں حافظ حبیب اللہ مرحوم کے پاس قرآن مجید کے ناظرہ کی تکمیل کی اور کئی عالموں سے علم حاص کیا۔ تبرکا میزان الصرف مولانا عبد العلی بحر العلوم کے پاس پڑھ کر دوسرے عالموں سے فیض حاصل کیا۔ آپ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ بدرالدولہ ایک عالم ہی نہیں بلکہ سماجی مصلح بھی تھے، اپنے خاندان میں رائج شادی کی بے جا رسومات کو بند کرایا، بینڈ باجا، آتش بازی، سانچق، چوتھی، وغیرہ ان تمام فضولیات کو روک دیا اور سنت نبوی کی پیروی کرتے ہوئے نکاح اور ولیمہ پر افراد خاندان کو اکتفا کرنے پر پابند کیا جس پر آج تک عمل ہوتا آ رہا ہے۔ آپ ایک حاذق طبیب بھی تھے، عام اطباء جو مغربی طب سے ناواقف تھے اور ادویہ کے استعمال سے عاری تھے، آپ نے نئی ادویہ کو داخل مطب کیا اور طب یونانی و انگریزی کو ملانے اور عام کرنے کا عمل شروع کیا۔ اس طرح دہلی میں اس کو شروع کرنے سے نصف صدی پیشتر آپ نے اس کو مدراس میں شروع کیا تھا۔
آپ کو فن ہیئت (فلکیات) سے بھی خاص دلچسپی تھی۔ جدید ہیئت کے مسائل سے جو اس وقت نئے نئے ہندوستان پہنچ رہے تھے، واقفیت حاصل کرنے کی پوری کوشش کرتے تھے۔ اوقات صلوۃ سمت قبلہ، طلوع و غروب آفتاب، فن اصطرلاب وغیرہ سے آپ کماحقہ واقف تھے۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.