ڈاکٹر محمد حمید اللہ، پروفیسر عابد صدیق اور موسیقی کا ذکر مذکور تحریر: حافظ صفوان
میں نے اپنے والد مرحوم پر ایک مضمون لکھا تھا: پروفیسر عابد صدیق- ایک ہیرا تراش کردار۔ اس میں ایک جگہ پر ان کی ڈاکٹر محمد حمیداللہ مرحوم سے ملاقات اور اس میں کی گئی موسیقی سے متعلق بات کو اپنے الفاظ میں لکھا تھا۔ یہ حصہ یہاں نقل کر رہا ہوں:
…. نیز یہ بھی معلوم ہے کہ لاہور فلم سٹوڈیو میں پہلی جماعت میرے ابوجان لے کر گئے تھے۔ اللہ کا کرم ہوا کہ بعد از آں یہاں سے متعلق کئی لوگوں کی زندگیاں بدلیں۔
اِس تبلیغی سفر میں وہ ایک بڑے صاحبِ طرز ایجاد رقاص کے ہاں گشت کے لیے گئے جو لکڑی کی کھڑاویں پہنتے تھے۔ اُن سے ملاقات اور وہاں کی گئی بات کی کارگزاری اُنھوں نے ڈاکٹر محمد حمیداللہ صاحب کو مشافہةً سنائی جب وہ خطباتِ بہاول پور کے سلسلے میں تشریف لائے ہوئے تھے۔ یہ گفتگو آج بھی کچھ یوں یاد ہے کہ گانے میں موسیقی اور بولوں کو نماز اور نماز سے باہر کی زندگی کی مثال سے سمجھایا تھا:
دن میں پانچ نمازیں اللہ سے کلام یعنی بول ہیں اور نماز سے باہر کی زندگی گویا موسیقی ہے۔ گانے میں موسیقی کی کمپوزیشن ایسے ہوتی ہے کہ آہستہ آہستہ کانوں میں بول پڑنے کی پیاس بڑھتی رہے۔ ایک خاص مقام پر یہ پیاس اِتنی بڑھ جاتی ہے کہ کان بول سننے کے لیے بے تاب ہوجاتے ہیں۔ یہاں موسیقی رک جاتی ہے اور بول شروع ہو جاتا ہے۔ اب بول بھی اِس سہجتے انداز اور تکنیک سے بولا جاتا ہے کہ بول کے ختم ہوتے ہوتے موسیقی کے اگلے دور کی پیاس بڑھتی جاتی ہے۔ ایک خاص مقام پر آکر یہ پیاس اِتنی شدید ہو جاتی ہے کہ مزید بول سننے کا یارا نہیں رہتا اور موسیقی کے اگلے دور کا آغاز ہو جاتا ہے۔ موسیقی کا یہ دور بھی پچھلے دور کی ایسے کمپوز ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ اگلے بول کے لیے پیاس بڑھاتا جائے۔ چنانچہ اِس طرح ایک گانے میں تین، چار یا پانچ دور موسیقی کے آتے ہیں اور اِتنے ہی بولوں کے۔ بس ایسا ہی کچھ نماز اور روزمرہ کی باقی زندگی میں ہوتا ہے۔ جب آدمی نماز سے باہر ہے تو اُس کی زندگی ایسے گزرے کہ نماز کا وقت آنے کی پیاس بڑھتی چلی جائے۔ نماز کا وقت آتے تک یہ پیاس اِتنی شدید ہوجائے کہ یہاں وقت داخل ہو اور یہ اللہ کا بندہ اپنی اب تک کی کارگزاری سنانے کے لیے اللہ کے سامنے کھڑا ہوجائے۔ اب نماز میں اللہ سے گفتگو چل رہی ہے اور نمازی اِس کا حظ اٹھا رہا ہے (اور بہترین نماز وہ ہے جس میں آدمی کو یہ کیفیت حاصل ہو کہ وہ اللہ کو گویا دیکھ رہا ہے)۔ اب بول جوں جوں ختم ہوتا جاتا ہے، نماز سے باہر کی زندگی میں اِس نماز سے حاصل ہونے والی کیفیت کے ساتھ لگنے کی پیاس بڑھتی جاتی ہے۔ اور جونہی یہ بول یعنی نماز ختم ہوتی ہے، نماز سے باہر کی زندگی میں اللہ کے احکامات کے مطابق لگنے کا والہانہ داعیہ پیدا ہو چکا ہوتا ہے اور آدمی دنیا کے کاموں میں اِس حاصل شدہ کیفیت کے ساتھ لگ جاتا ہے۔ نماز کی بہترائی سے نماز سے باہر کی زندگی بہترین بنے گی، اور نماز سے باہر کی زندگی کی اچھائی سے نماز بہترین ہوگی۔ یعنی جتنی موسیقی اچھی اُتنا بول بھی اچھا۔ دن میں پانچ بار اللہ سے ہمکلامی اور نماز سے باہر کی زندگی کی کارگزاری اللہ کو خود پیش کرنا اگر اللہ کی حضوری کے احساس کے ساتھ ہے تو کیا ہی کہنے۔ چوبیس گھنٹے میں پانچ نمازیں اِسی لیے عطا ہوئی ہیں کہ بندے کا کوئی لمحہ اللہ کی یاد یا اللہ سے ہمکلامی کے شرف سے خالی نہ گزرے۔ پوری زندگی اِس طرح گزرے کہ بندہ یا تو اللہ کی یاد میں ہو یا اللہ سے ہمکلامی کی حالت میں ہو۔ اور اِسی لیے یہ ارشاد ہوا ہے کہ وہ شخص ہلاک ہوگیا جس کے دو دن ایک جیسے گزرے، یعنی ہر آنے والا دن حضوری و ہمکلامی کی کیفیت کے اعتبار سے پچھلے دن سے بہتر ہونا چاہیے۔
المختصر اللہ کی توفیق سے وہ صاحب جماعت والوں کے پاس مسجد تشریف لے آئے، اور بتایا کہ میں 37 سال کے بعد مسجد میں آیا ہوں۔ ابوجان جب کبھی یہ کہتے کہ تبلیغ کے کام میں سوائے مردم بیزار آدمی کے ہر شخص لگ سکتا ہے خواہ وہ تھیٹر کا نچنیا ہی ہو، مجھے یہ گفتگو اور مرحوم ڈاکٹر محمد حمید اللہ یاد آجاتے تھے۔