جس کی والدہ ایسی تربیت کرتی ہو وہ ڈاکٹر محمد حمیداللہ نہیں بنے گا تو کیا بنے گا۔ تحریر: عبدالوحید
جس کی والدہ ایسی تربیت کرتی ہو وہ ڈاکٹر محمد حمیداللہ نہیں بنے گا تو کیا بنے گا۔
یوم وفات 17 دسمبر 2002
تحریر: عبدالوحید(نائب مدیر مرکز تعلیم وتحقیق )
۱۱ – اگست ۲۰۲۲ کو استاد محترم ڈاکٹر محمد غزالی ( ڈاکٹر محمود غازی مرحوم کے چھوٹے بھائی ) سے ہونے والی ملاقات میں انہوں نے ڈاکٹرحمید اللہ صاحب کے بہت سے ایسے واقعات سنائے جن سے ان کی قدرومنزلت اور بڑھ گئی اور قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کے کئی واقعات نظروں کے سامنے آنے لگے ۔ اگرچہ ہمارے پی ایچ ڈی کے مقالے کا عنوان ” ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی دعوتی خدمات “ ہے لیکن ان کی سادگی ، انکساری ، خیر خواہی ، خدمت ، محبت ، عشقِ رسول ، حبِ دین اور کئی دیگر پہلووں کے اتنے دریچے وا ہوئے کہ دل چاہتا ہے ان دریچوں سے آنے والی مسحور کن خوشبو سے آپ کو بھی معطر کردوں یہ خوشبو نری خوشبو ہی نہیں بلکہ اپنے اندر عمل کا ایسا بھر داعیہ رکھتی ہے کہ جس کی مثال خال خال نظر آئے گی ۔
۱۹۸۰ میں جب ڈاکٹر محمد حمیداللہ صاحب جامعہ بہاولپور تشریف لائے تو مجھے ان کے ساتھ سفر کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ انہوں نے اس دوران ایک واقعہ سنایا کہ جب میں نے حفظ قرآن مکمل کیا تو تقریب آمین کا انعقاد کیا گیا ، جس میں محلے کے بچوں اور خواتین نے شرکت کی ، اس خوشی کے موقع پر مٹھائی بنائی گئی ، والدہ نے مجھ سے کہا : بیٹا مٹھائی اٹھا کر سب میں تقسیم کرو، کہتے ہیں کہ میں نے والدہ سے کہا: میری تقریب ہے میں پہلے مٹھائی کھاؤں گا ، اس کے بعد تقسیم کروں گا۔ والدہ نے کہا: نہیں پہلے تقسیم کرو اس کے بعد تم لینا،لیکن میں بضد تھا کہ اسی اثناء میں خواتین نے کہا کہ بہن رہنے دیجیے پہلے بچہ خود مٹھائی کھالے پھر تقسیم کردے گا، ماں نے کہا کہ نہیں اس کو ابھی سے ہی بڑوں کا ادب سکھانا ہے ۔ کہنے لگے : پھر ماں کے حکم کے مطابق پہلے مٹھائی تقسیم کی اور پھر میں نے کھائی۔ ڈاکٹر غزالی صاحب نے یہ واقعہ سنانے کے بعد کہا: کہ جس کی والدہ ایسی تربیت کرتی ہو وہ ڈاکٹر محمد حمیداللہ نہیں بنے گا تو کیا بنے گا۔
آج بھی اگر والدین اپنی اولاد کی اس انداز میں تربیت کریں کہ دین اسلام کا بتایا ہوا نظام حیات ان کو سکھائیں اور اس امر کو اپنے اوپر لازم کرلیں تو نیک وصالح اولاد کی نعمت مل سکتی ہے اور معاشرے کو قد آور شخصیات مل سکتی ہیں جو دین اسلام کی احسن انداز میں خدمت کرسکیں ۔
اسی طرح ایک واقعہ یہ بیان کیا کہ ہم لاہور گئے تو ڈاکٹر صاحب میری خوب خدمت کیا کرتے ، مثلاً: مجھے جگانا وغیرہ تو میں نے ان سے کہا: ڈاکٹر صاحب مجھے سچ سچ بتائیے آپ ایسا کیوں کررہے ہیں حالانکہ میں آپ کی خدمت کے لیے ساتھ آیا ہوں ؟ انہوں نے کہا: اس میں کوئی تصنع نہیں ہے ، بس خدمت کے جذبے سے یہ کام کررہا ہوں ۔
اسی طرح جب ہم لاہور سے واپس آرہے تھے تو ڈاکٹر محمد حمیداللہ ؒ نے مجھ سے کہا : پوسٹ آفس میں کچھ کام ہے وہاں رکیے گا ۔ میں نے پوسٹ آفس پر گاڑی رکوادی ، انہوں نے مجھے کہا: آپ بیٹھیں میں کچھ دیر میں آتا ہوں ۔ وہ پوسٹ آفس گئے تو میں نے دیکھا کہ انہوں نے جیب سے ایک لمبی لسٹ نکالی جس میں ان کے پاکستان میں رہنے والے رشتہ داروں کے گھر کے ایڈریس لکھے ہوئے تھے ، انہوں نے ان سب کو بذریعہ ڈاک معاونت کی غرض سے رقم ارسال کی۔
(بقیہ جلد)