ایلاف۔ جاہلیت میں عربوں کے معاشی وسفارتی تعلقات
ایلاف
Ailaf
جاہلیت میں عربوں کے معاشی وسفارتی تعلقات
Jahaleat Mein Arbon Kay Maashi Wa Sifarti Taulqat
ڈاکٹر محمد حمید اللہ
Dr. Muhammad Hamidullah
ڈاؤن لوڈ پی ڈی ایف میڈیا فائر
ڈاؤن لوڈ پی ڈی ایف آرکائیو
ڈاؤن لوڈ پی ڈی ایف سکربڈ
ایلاف
جاہلیت میں عربوں کے معاشی و سفارتی تعلقات
کلیہء ادبیات، جامعہء استانبول
عرصہ ہوا سورہ ایلاف کی تفسیر میں نے فرانسیسی میں شائع کی تھی، اب اس کا اُردو ترجمہ جو میں نے ہی کیا ہے، کراچی کے موقر رسالہ ”البالغ“ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں تاکہ اگر پسند آئے تو شائع فرما دیں۔ محمد حمید اللہ 23 ذی الحجہ 1387ھ
شہر مکہ کی تاسیس اور آغاز
اہل مکہ کی روایتیں کہتی ہیں کہ اس شہر کا آغاز حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ہوا۔ (جو تقر یا اٹھارہ سو سال قبل مسیح پیدا ہوئے تھے ) شخصی اسباب کی بنا پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی بیوی حاجرہ اور دودھ پینے کے اسماعیل علیہ السلام کو وادی بکہ(قرآن سوره ۳، آیت ۹6) میں لا چھوڑا اور وہیں رفتہ رفتہ شہر مکہ آباد ہوا، یہ مقام اس وقت غیر آباد تو رہا ہو سکتا ہے لیکن قطعا بے آب و گیاہ اور نا قابل رہائش بہرحال نہ تھا (سیرة ابن ہشام، طبع یورپ، صفحہ 71-۷۲) غیر آباد ہونے کے باعث وہاں زراعت نہ ہوتی تھی (قرآن کریم سورہ ۱۴، آیت ۳۷:”واد غیر ذی زرع، مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو وہاں آبادی کے امکانات اور انسانی زندگی کے ضروری عناصر نظر آئے ہوں گے جبھی تو انہوں نے ( مکہ کی قدیم ترین تحریری تاریخی دستاویز لیکن قرآن مجید سورہ 14، آیت ۳۵ تا ۳۷، نیز سورہ۲،آیت ۱26 کے مطابق) دعا فرمائی۔
“اور جب ابراہیم نے کہا: اے میرے رب، اس مقام کو پُر امن بنا، اور مجھے اور میرے بچوں کو بت پرستی سے بچا… اے میرے اب میں نے اپنی نسل کے ایک حصے کو ایک زراعت سے خالی وادی میں لا بسایا ہے جو تیرے حرام بنائے ہوے گھر کے پاس ہے، تا کہ اے ہمارے رب وہ نماز قائم کریں پس ایسا کر کے لوگوں کے دل ان کی طرف مائل ہوں اور انہیں میووں کا رزق عطا فرماء شاید وہ شکر ادا کیا کریں گے۔ “
عربی ماخذوں سے پتا چلتا ہے کہ اس وادی بکہ کے آس پاس کے علاقے میںعرب باشندے خانہ بدوش ہی سہی، رہتے تھے۔ ان کا تعلق بڑے اور طاقتور قبیلہ عمالقہ سے تھا (جیسا کہ ابن ہشام صفحه ۳۹ نے ابن الزبعری کی بیت کونقل کرتے ہوئے بتایا ہے، نیز دیکھو سہیلی کی الروض الانف جلد اول صفه اه) یہ وہی عالقہ ہیں جن کی ایک شاخ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مصر سے خروج سے قبل فلسطین میں بس چکی تھی۔ یہودیوں نے ان کو وہاں سے نکال کر خود بسنا چاہا، عالقہ نے حفاظت ذاتی میں مقاومت کی اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد کے یہودیوں نے ان بیچاروں کو بائبل میں جتنا کوسا اور بدنام کیا ہے اور ان کو اور انکی عورت، بچوں اور شیرخواروں ہی کو نہیں جانوروں تک کو جس بے دردی سے نیست و نابود کرنے کا حکم دیا ہے (دیکھو توریت کی کتاب تثنیہ جو حضرت موسی علیہ السلام کے کئی سو سال بعد کی تالیف ہے، باب ۲۰ جملہ 16۔ نیز اشموئیل اول 15 / 3 ) وہ انسانی تاریخ کا سب سے شرمناک واقعہ کہا جا سکتا ہے، لیکن اس سے ہمیں یہاں بحث نہیں۔
مذکورہ عربی ماخذوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جنوبی عرب کے قبائل میں سے ایک یعنی جرہم کے کچھ لوگ وادی مکہ میں سے گزرے اور وہاں پینے کا پانی افراط سے چشمے کی صورت میں دیکھا …………………جواب زمزم کا کنواں بن گیا ہے……………………. نیز ایک جنگل موجود پایا (ابن ہشام صفحہ ا۷-۷2) اور ممکن ہے جانوروں کے لیے چراگاہ بھی
پائی ہو، اس پر وہ وہیں ٹہر گئے ۔ اگر حضرت ہاجرہ کو اپنی تنہائی میں اس قبیلے کی آمد غنیمت معلوم ہوئی تو جرہمیوں کو بھی چشے کی مالک حضرت ہاجرہ نے وہاں بسنے کی اجازت دی تو شکر گذاری محسوس ہوئی، چنانچہ انہوں نے بی بی اور ان کے ننھے بچے کو اپنی حفاظت اور مہمان نوازی میں لے لیا، جرہمیوں کے دوسرے رشتہ دار خاندان بھی رفتہ رفتہ وہاں آ کر بسے۔ اور بستی وفاقی دستور کا ایک شہر یا ایک شہری مملکت بن گئی۔ اس کا مرکزیت کی وجہ یہ ہوئی کہ ان کنبوں میں اس بات پر اتفاق نہ ہو سکا کہ شہری زندگی سب لوگ ایک ہی ادارے کے تحت گزاریں۔ ابن ہشام (حوالۂ بالا) کے مطابق جرہم قبیلہ اپنے سردار مضاض بن عمرو کے ساتھ معلات (بالائی رقبے) میں بسا اور ان کا رشتہ دار قبيلہ قطوراء، جس کا سردار سمیداع تھا مسفلہ (زیرین رقبے میں قیام پذیر ہوا۔ جو کوئی شمالی راستے سے شہر میں آتا تو اس سے مضاض عشر ( چنگی ) وصول کرتا اور جو جنوبی راستے سے آتا وہ عشر سمیداع کو ادا کرتا، کچھ عرصہ بعد ان دونوں قبیلوں میں برادرکشی اور جنگ کا بھی پتا چلتا ہے جس پرکسی کو حیرت نہ ہونی چاہیے۔
مگر اتنے قدیم عہد میں اس شہری مملکت کے سفارتی تعلقات کے سلسلے میں معلومات اور تفصیلوں کی تلاش بے سود ہوگی۔جو بھی ہو، کہتے ہیں چند سال بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام وہاں دوبارہ آئے، تا کہ اپنے بیٹے اسماعیل کو جواب ایک نوجوان لڑکا تھا، دیکھیں۔ قرآن مجید (سورہ ۲، آیت 127و مابعد) کی شہادت کے مطابق حضرت اسماعیل علیہ السلام کی مدد سے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے وہاں ایک عبادت گاہ تعمیر کی۔ یہ ایک سادہ مکعب کوٹھڑی تھی، جو اب کعبے کے نام سے مشہور ہے۔ اسے آپ نے “بیت اللہ” کا نام دے کر خدائے واحد کی عبادت سے مخصوص کیا، قرآن مجید (سوره ۳، آیت ۹6) نے اسے “اول بیت وضع للناس» (پہلا گھر جو لوگوں کے لیے بنایا گیا) قرار دیا ہے، اور یہ بیت المقدس سے کہیں قدیم تر ہے (جسے حضرت سلیمان علیہ السلام نے بتایا) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبے کے سلسلے میں حج کا بھی حکم دیا کہ لوگ ہر سال عبادت کے لیے اس کی زیارت کو آ ئیں۔ آس پاس کے لوگ بھی وہاں کشاں کشاں آنے لگے (کوئی عبادت کے لیے تو کوئی تجارت کے لیے ) اور اس طرح شہر کی اہمیت روز بروز بڑھتی ہی گئی۔
اس کا سلسلہ صدیوں جاری رہا، اس اثنا میں بڑے بھی وہاں آ کر ادب سے سر جھکاتے رہے چھوٹے بھی۔ اگر وہاں عرب کے مختلف علاقوں کے بادشاہ نظر آتے ہیں تو اجنبی بھی ملتے ہیں، عرب مورخوں (شرح بخاری لعینی ج۷، ص۳۶۵، نیز اخبار مکتہ للازرتی ، و کتاب التيجان لابن هشام، بر موقع) کو یقین ہے ان اجنبی زائروں میں افسانہ خیز با شاه ذوالقر مین (یعنی دوسینگوں) والا بھی شامل تھا۔ اگر اس سے مراد سکندر اعظم ہے تو یونانی تاریخوں میں سکوت ملتا ہے، اگر چہ اس کا مصر سے ہندوستان جاتے ہوئے حجاز سے گزرنا ناممکن نہیں، خاص کر اس بت پرست اور اوہام پسند بادشاہ کے لیے مکے کی عبادت گاہ اتنی مشہور تھی کہ پرانے یونانی جغرافیہ نگار بھی اس کا ذکر کرتے ہیں۔
مثلا بطلیموس (جغرافیہ کتاب ۴، باب 7 ، فصل ۳۲) اس کو مقربہ (MACURABA) کے نام سے یاد کرتا ہے۔ خوری حطی( کی انگریزی ہسٹری آو دی بس طبع ۱۹۵۱ء صفحہ 103 میں) لکھا ہے، سبائی زبان میں اس لفظ کے معنے عبادت گاہ کے ہیں (غالبا اس لفظ کو عربی لفظ مَقرَب سے ربط ہے جوقَرب اور قربان گاہ کے معنے رکھتا ہے یعنی بھینٹ چڑھانے کی جگہ : کعبے کے پاس ایسا ہوا بھی کرتا تھا) اس سے اس روایت کی توثیق ہوتی ہے کہ یمنی قبیلہ جرہم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام و اسماعیل علیہ السلام کے زمانے میں مکہ آباد کیا تھا، جہاں تک ذوالقرنین کا تعلق ہے مقدونیہ والا سکندر اعظم ایک مینڈھے کی پوجا کیا کرتا تھا اور اس کی سینگیں بطور علامت کے ٹوپی پر لگا کر پہنتا تھا، یہ رواج مقدونیہ یوگوسلاویہ) میں اب تک رہا ہے اور وہاں کے حکمران عیسائیت کے باوجود دو سینگوں والی ٹوپی در باری مراسم کے وقت پہنتے رہے ہیں، عربوں نے سکندر اعظم اور اس کے ساتھیوں کو اس لباس میں دیکھا تو ذوالقرنین سے بہتر نام اسے اور کیا دیا جا سکتا ہے۔ مصر میں سکندر اعظم کے جو کتبے ہیں ان سے اس لباس اور اس کے مفہوم کی پوری توثیق ہوتی ہے۔ عبد المطلب کے زمانے میں کعبے کی آرائش جن قدیم اور قیمتی چڑھادوں سے کی جاتی تھی ان میں دو سینگوں والے سنہری کبش ( مینڈھے) کے سر کا بھی ذکر آتا ہے ۔
(اخبار مكہ للازرتی ، ص1۱۱، سنن ابی داؤد/ ۹۵)
معلوم نہیں ایرانی بادشاہ ساسان کبھی شخصاً مکہ آیا تھا یا نہیں ، مگر سہیلى (الروض الانف ا/۹۷) نے لکھا ہے کہ جب خزاعہ قبیلے نے حملہ آوری کر کے جرہم کو مکہ سے نکال باہر کیا تو جرہمیوں نے کعبے کے چڑھادوں کا خزانہ زمزم کے کنوئیں میں ڈال کر اسے پاٹ دیا تھا، عبد المطلب نے جب زمزم کا خواب میں نشان پا کر اس کو دوبارہ کھودا تو اندر سے خزانہ بھی برآمد ہوا، اس میں دو سنہری ہرنیں اور چند قلعی، تلواریں بھی تھیں جو ایرانیوں کے بادشاہ ساسان نے کعبہ کو تحفہ دی تھیں ۔ بعض روایتوں میں یہ بادشاہ شاہپور کی فرستاده چیزیں ہیں۔
مختلف خانوادے:
جرہمیوں کے علاوہ جن کا اوپر ذکر آیا مورخوں کا بیان ہے کہ مکے پرقبیلۂ ایاد نے بھی حکمرانی کی ہے (انساب الاشراف للبلاذری جلد اول، ص ۵۱) پھر انہوں نے خزاعہ قبیلے کے لیے اپنی جگہ خالی کی ۔ اس عہد کے متعلق زیادہ حالات معلوم نہیں، لیکن جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے قُصَی نے خزاعی سردار کی بیٹی سے نکاح کیا تو یہ ایک تاریخی زمانے سے تعلق رکھتا ہے جس کا ٹھیک عصر بھی معین کیا جا سکتا ہے۔ خسرکے انتقال پرقصی نے وہاں سرداری حاصل کر لی۔ قصی کی ماں شمالی عرب کے قبیلہ قضاعہ سے تعلق رکھتی تھی، ابن حبیب (کتاب المنمق طبع حیدر آباد دکن ، ص ۲۷6) کا بیان ہے کہ اس تبدیلی حکومت کے زمانے میں قضاعہ اور ان کے حلیف اسد کے قبیلوں نے مسلح فوج بھیج کر قصی کی حمایت کی تھی۔ ابن حبیب کے شاگرد ابن قتیبہ (کتاب المعارف طبع یورپ، ص ۳۱۳ ) کے مطابق تو قیصر روم (بیزنطینی حکمران) نے قصی کی مددکی تھی۔ اس زمانے میں پہلا تھیوڈوس (۳۷۹ ج ۳۹۵) بادشاہ تھا۔ اس زمانے میں رومی سلطنت کے دوٹکڑے ہو گئے تھے اور قسطنطنیہ کے مشرقی رومیوں (بیزنطینیوں) نے روما کے مغربی رومیوں سے خودمختاری اختیار کر لی تھی ممکن ہے قصی کی مدد سے تھیوڈوس کا منشا اپنے اقدار کو مضبوط تر بلکہ وسیع تر کرنا بھی ہو۔
جو بھی ہوا ہو،قصی نے بلدی زندگی کی نئی تنظیم کی اور مکے کی شہری مملکت میں متعدد ادارے کارفرمائی کرنے لگے جن میں سے بعض صراحت کے ساتھ قصی کی ایجاد ہونا بنائے گئے ہیں۔
(مثلاً باشندوں پر رفادہ کے نام سے ایک سالانہ ٹیکس عائد کیا جا نا )۔
مکے کی حکومت:
ہر دیگر مملکت کی طرح مکے کی شہری مملکت بھی خودمختارتھی اور اندرونی اور بیرونی اقتدار اعلی سے بہرہ ور تھی۔ چنانچہ وہ اجنبیوں سے معاہدے کر سکتی اور کسی اور اجنبی اقتدار کی ماتحتی کے بغیر ان سے امن یا جنگ کے تعلقات رکھ سکتی تھی۔
ہم یہاں صرف سفارتی اور اجنبی تعلقات سے بحث پر اکتفا کریں گے۔ اس سلسلے میں وہاں ایک موروثی عہدہ دار (وزیر) سفیر ومنافر‘‘ کے نام سے پایا جاتا تھا۔
اس کا پتا نہیں چلتا تھا کہ کس تاریخ سے اس ادارے کا آغاز ہوا، لیکن زمانہ ماقبل اسلام کے متعلق پرانے مورخوں نے بعض معلومات محفوظ رکھی ہیں۔ چنانچہ ابن عبدربه (فوت۲۳۸ھ، ۱۴۰ء) نے العقد الفريد (طبع بولاق ۱2۹۳ھ، جلد دوم، ص ۴۹) میں اور المقریزی (ف۸۳۵ه ۱44۲ء) نے الخیر عن البشر (مخطوطۂ مصر جلد چہارم،ص ۸۸ تا۹۰) میں ………… اور ان میں سے اول الذکر نے ابن الکلبی کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ زمانہ جاہلیت میں مکے میں اعیانی حکومت تھی جس میں دس موروثی سرداروں کی مجلس کارفرمائی کرتی تھی۔ وزیر خارجہ کا ذکر کرتے ہوے یہ مورخ لکھتے ہیں کہ اگر کوئی جنگ چھڑتی تو حضرت عمر بن الخطاب کو سفیر بنا کر بھیجا جاتا، اگر کسی اور قبیلے سے فضیلت اور برتری منوانے کے لئے منافرت کی ضرورت پیش آتی تو اس کے لیے بھی قریش عمر بن الخطاب کو اپنا منافر بنا کر بھیجتے اور یہ نمائندہ جو بھی کہتا قریش اسے قبول کر لیتے‘۔ سارے مؤلف اس پر متفق ہیں کہ اس مجلس حکومت میں دس افسرہواکرتے، یہ کہ اسلام کی آمد تک اس کا سلسلہ جاری رہا اور یہ کہ سفیر و منافر کے عہدے پر اسلام سے عین ماقبل حضرت عمر مامور تھے۔
الازرقی نے اپنی مشہور تاریخ (اخبار مکہ طبع یوروپ ص ۱۰۷) میں بیرونی تعلقات کے متعلق ایک اور واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ وہ یہ کہ ایک مرتبہ خانہ کعبہ میں آگ لگی جس سے دیوار میں کمزور ہو گئیں، پھر جب ایک موسلا دھار بارش ہوئی تو دیوار میں گر پڑیں اور دوبارہ تعمیر کی ضرورت پیش آئی۔ اس طوفان سے سمندر بھی محفوظ نہ رہا اور ایک رومی ( بیزنطینی ) جہاز جو سامان لے کر (مصر سے) یمن جا رہا تھا، شعیبہ (موجودہ جدہ) کے سامنے خشکی پر چڑھ گیا ، خبر ملی تو مکے والے وہاں گئے اور جہاز کا جو سامان بچ سکا تھا خاص کر لکڑی کے تختے خرید لیے اور جہاز والوں کو اجازت دی کہ مکہ آئیں اور بچا کھچا سامان وہاں بیچیں اور انہیں عشر (محصول در آمد ) بھی معاف کر دیا، ورنہ عادت یہ تھی کہ رومی تاجر مکہ آئے تو ان سے وہاں عشر (دس فیصد چنلی) وصول کیا جائے جس طرح کہ رومی اپنے علاقہ میں مکی تاجروں سے وصول کرتے تھے۔ یہ 60۵ ء کا واقعہ ہے جبکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر پینتیس (۳۵) سال کی تھی اور اس میں شبہہ نہیں کہ مکی قانون بین المما لک کا خاصا قدیم قاعدہ تھا۔
یہاں ایک اور واقعے کا ذکر کیا جا سکتا ہے جسے کسی قدر اہمیت حاصل ہے، وہ یہ کہ قدیم زمانے میں مکہ مشرق و مغرب کی بین الما لک تجارت کی شاہراہ پر واقع تھا۔ یمن بلکہ خود ہندوستان کی پیداوار شام اور قسطنطنیہ جانے کے لیئے مکے سے گزرتی تھی۔ اس عبور و مرور کے لیے ہر مقام (بشمول مکہ) کے لوگوں کی اجازت نا گز یرتھی۔ اس طرح عرب بھی (شمول اہل مکہ ) تجارت کے لیے بیرونی ممالک کا سفر کیا کرتے تھے، اور سربرآوردہ لوگ جہاں بھی جاتے وہاں کے اعلی افسروں سے ضرور ملتے تھے۔ خاص کر شاعر بادشاہوں کے دربار میں حاضر ہوتے اور مدح و ستائش کے قصیدے گاتے۔ ابن عبد ربہ وغیرہ کی کتابوں میں ’وفادات” پر مستقل بات بھی ہیں کہ کس طرح مختلف عرب افراد بیرونی حکمرانوں کے ہاں باریاب ہوتے رہے۔ اس سلسلے میں مکہ کے سر بر آوردہ لوگ حبش کے نجاشی، فارس کے کسرٰی، مصر کے گورنر، میمن، غسان (شام) اور حیرہ (عراق) کے بادشاہوں وغیرہ کے ہاں حاضر ہوتے نظر آتے ہیں۔
اس طرح کی ایک سفارت قبل اسلام کی عربی تاریخ میں بڑی مشہور ہے۔ اسے ایلاف کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ اس موضوع پر کثیر مواد کے باوجود مشرق میں ہو کہ مغرب میں، کسی نے اب تک توجہ نہیں کی یہاں اس کا کچھ ذکر مطلوب ہے۔
ایلاف
سب سے پہلے یہ یاد دلانا ہے کہ قرآن مجید میں ایک چھوٹا لیکن پورے کا پورا سورہ اس موضوع پر ہے جسے کبھی سورہ قریش اور کبھی سوره ایلاف کا نام دیا جاتا ہے۔
اس کا ترجمہ درج ذیل ہے
رحمان اور رحیم اللہ کے نام سے!
ا۔ قریش کے ایلاف کے باعث،
۲۔ ان کے ”ايلاف‘‘ کے باعث سرما اور گرما کا کارواں چلا ہے۔
٣۔ پس چاہیے کہ وہ اس گھر (کعبہ) کے آقا کی عبادت کریں۔
4۔جس نے بھوک پر انہیں کھانا کھلایا۔
۵۔ اور خوف پر انہیں امن مہیا کیا ہے۔
(سورہ ۱۰6، آیات اتا۵)
سورے میں مذکورہ اس’الاف“ سے کیا مراد ہے؟ اولاً ایک پرانے واقف کار مورخ ابن حبیب (فوت ۲4۵ ه) کی طرف رجوع کریں، وہ اپنی کتاب المحبر بص۱62 میں) بیان کرتا ہے کہ ”ايلاف العهود (یعنی ایلاف کے معنی معاہدوں کے ہیں)،
سہیلی نے (اپنی سیرت نبوی الروض الانف، ا/ ۲۸ میں) اس کی تائید کی ہے، اور مختلف شواہد سے استناد کیا ہے۔ لغت نویسوں کو بھی اس سے انکار نہیں۔ ایلاف کا مادہ ”الف“ الفت اور دوستی کے معنی رکھتا ہے اور اس کا فعل متعدی یعنی ایلیف دوستی کرانے، اور الفت پیدا کرنے کے معنے رکھ سکتا ہے۔ لسان العرب اور تاج العروس جیسی بڑی اور مستند لغتوں میں مادہ الف کے تحت مزید برآں بھی صراحت ہے کہ “قرآن مجید میں آئے ہوے لفظ ایلاف کے معنے معاہدوں اور سمجھوتوں کے ہیں” لیکن بطور اسم علم کے ایلاف کا اطلاق ان معاہدوں پر ہوتا ہے جو چندسربرآوردہ اہل مکہ نے ہمسایہ حکمرانوں سے طے کیا تھا (جن کی تفصیل نیچے آتی ہے)۔ ایلاف کے اس مفہوم کی مز ید توثیق اس طرح بھی ہوتی ہے کہ ان ایلاف نامی معاہدوں کو بعض مورخوں نے عِصَم اور عہود کے نام سے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے۔ ان الفاظ کے بھی معنے ہیں معاہدے، یا اطمینان دہانیاں۔
ان معاہدوں کا قصہ:
تاریخ یعقوبی (1/۲۷۰تا ۲۸۴) میں لکھا ہے: اہل مکہ مصیبت زدہ تھے اور ان کے تاجروں کا کاروبار حدود شہر سے باہر نہ جاتا تھا ۔ ایک سال قحط پڑ کر حالت ابتر ہوگئی تو ہاشم (آنحضرتؐ کے دادا) نے تجارت کے لیے شام کا سفر کیا، کارواں کے سردار کے اچھے طر زعمل کی اطلاع قیصر روم تک پہنچی، وہ فیاض، مہمان نواز اور دیگر اچھے اخلاق کا حامل ہے۔ اپنے استعجاب کی تشفی کے لیے قیصر نے ہاشم کو حضور میں طلب کیا اور گفتگو کے بعد اسے اجازت دی کہ تجارتی کارواں شام لایا کرے اور وہاں اپنے ملک کی پیداوار بیچے، مثلاً حجاز کے چمڑے اور یمن کے کپڑے، سفر واپسی میں ہاشم نے شام سےمکے تک راستے میں پڑنے والے قبیلوں سے (عبور و مرور کی سلامتی کے) معاہدے کیے ………………..یعقوبی نے یہ بھی اضافہ کیا ہے کہ ہاشم نے ایک مماثل معاہدہ حبش کے نجاشی سے بھی کیا، پھر ہاشم کی وفات پر (اس کے بھائی) عبدشمس نے جبش کا سفر کیا کہ اس اجازت نامے کی تجدید کرائے۔
ایک اور مورخ این حبیب نے اپنی کتاب ( المنمق ص ۳۱ تا ۴۰ باب ’’حدیث الايلاف) میں اس کی مزید تفصیلیں دی ہیں اور الکلبی کے حوالے سے ہاشم اور قیصر کی گفتگو نقل کی ہے۔ چنانچہ لکھا ہے کہ ہاشم نے قیصر سے کہا کہ اگر حجازی پیداوار خود لا کر بیچے تو درمیانی واسطے نہ ہونے کی وجہ سے) وہ تمہیں سستی پڑ یگی (فهو أرخص علیکم) قیصر کی اجازت ملنے پر ہاشم مکہ واپس آیا ایک بڑا تجارتی کاروان تیار کیا اور شام لے گیا۔ ابن حبیب لکھتا ہے کہ اس دوسرے سفر کی اثنا میں ہاشم نے شہر غزہ میں (جوعرب کے انتہائی شمال میں علاقہ فلسطین میں بحر متوسط پر واقع ہے) وفات پائی اور اسے وہیں دفن بھی کر دیا گیا۔ یہ کہ ایک مماثل مقصد کے لیے ہاشم کے بھائی المطلب
نے یمن کا سفر کیا اور رومان (یمن) میں وفات پائی : تیسرا بھائی نوفل کارواں لیکر عراق گیا کیونکہ کسرٰی ایران نے اسے اس کی اجازت دی تھی۔ نوفل کی وفات سلمان(عراق) میں ہوئی: صرف چوتھا بھائی عبد شمس حبش کے کاروان سفروں کے باوجود اپنےگھر میں فوت ہوا اور مکے میں دفن کیا گیا ، شاعر مطرود الخزاعی نے اس کا ذکر اپنے مرثیے میں یوں کیا ہے (ترجمہ از عربی):
ایک قبرسلمان میں، ایک قبر۔
رَومان میں اور ایک قبرغزات (غزه ) میں۔
اور ایک جس کی وفات
حجون کے قریب شنیات کے مشرق میں ہوئی۔
طبقات ابن سعد (طبع يورپ جلد اول، حصہ اول ص ۴۳ تا ۴6) میں کئی ماخذوں کی مدد سے تفصیل دی گئی ہے، چنانچہ الکلبی کے مطابق سب سے بڑے بھائی المطلب نے نجاشی حبش سے، ہاشم نے شام کے ہرقل سے …………………..(گویا ہرقل رومی شہنشاہوں کا لقب ہو)، نوفل نے کسرٰی عراق سے اجازت حاصل کی کہ ان کے علاقوں میں تجارتی کارواں لایا کریں۔ ابن عباس کی روایت کے مطابق سردیوں میں کاروان یمن جاتے اور گرمیوں میں غزه بلکہ انقرہ تک چلے جاتے۔ آگے چل کر ابن سعد نے لکھا ہے کہ قیصر نے نہ صرف ہاشم کو ر ومی علاقے میں کارواں لانے کی اجازت دی، بلکہ ایک سفارشی خط نجاشی کے نام بھی دیا جس میں حبش کے بادشاہ سے سفارش کی تھی کہ وہ بھی مکی تاجروں کو مماثل اجازت دے، ابن سعد نے یہ بھی لکھا ہے کہ ہاشم نے راستے پر پڑنے والے قبیلوں سے بھی معاہدے کیے جن میں یہ قراردادتھی کہ ان قبیلوں کا سامان قریش رومی منڈیوں تک خود مفت لیجائیں گے اور جو قیمت وصول ہودہ کمیشن لیے بغیر ان کو ادا کر دیں گے (معاوضہ میں قبیلہ کارواں کی سلامتی کا ذمہ دار ہو گا ) ابن سعد نے مزید برآں یہ بھی صراحت کی ہے کہ قیصر سے اجازت ملنے کے بعد ہاشم جب مکرر (آخری مرتبہ) شام کے سفر پر روانہ ہوا تو اثناء راہ میں مدینے سے گزرتے وقت وہاں ایک نوجوان بیوہ سے نکاح کیا پھر آگے روانہ ہو کر یکا یک غزہ میں وفات پائی۔ چند ماہ بعد سوگوار بیوی کو عبدالمطلب نامی لڑکا پیدا ہوا (یعنی آنخضرتؐ کا داد)۔
تاریخ طبری (طبع یورپ سلسلہ اول صفحہ ۱۰۸۹) میں لکھا ہے کہ یہ معاہدہ شام کے رومی اور غسانی افسروں سے طے ہوا تھا، یہ کہ ہاشم کے بھائی عبدشمس نے حبش کا سفر کیا کہ نجاشی سے مماثل معاہدہ کرے، یہ کہ ایک اور بھائی نوفل کسرٰی ایران سے ملنے عراق گیا تا کہ عراق اور ایرانی سرزمین میں آنے کی مماثل اجازت حاصل کرے، اور یہ کہ ایک اور بھائی المطلب نے یمن کا سفر کیا تا کہ وہاں کے حمیری بادشاہ سے بھی اسی طرح کا اجازت نامہ حاصل کرے۔
ابن حبیب کی کتاب النمق (ص ۲6۲ تا ۲6۴) میں اسی موضوع پر ایک دوسرا باب بھی ہے جس کا عنوان ہے “حدیث الرحلتین) اس میں الکلبی کی روایت نقل ہوئی ہے کہ ابتداء ً قریش کی یہ عادت تھی کہ ہر سال دو مرتبہ کاروانی سفر کریں: سردیوں میں یمن کا گرمیوں میں شام کا۔ رفتہ رفتہ یہ ان کے لیے دوبھر ہو گیا ……….. (اس لیے کہ وہ مالدار اور آرام طلب ہو گئے تھے؟ یا اس لیے کہ اصل کار پرداز تاجر بوڑھے ہو گئےتھے؟ ) …………. اس پر تبالہ اور جرش نیز یمن کے بعض دیگر ساحلی رقبوں کے باشندے سامان پہنچانے کا کام خود انجام دینے لگے۔ بری تاجر ( جنوبی مشرقی مضافات مکہ یعنی) المحصب تک سامان پہنچاتے ، اور بحری تاجر بندرگاہ جدہ تک ۔ اس طرح اہل مکہ کو خود سفر کرنے کی حاجت نہ رہی، مگر ایک مرتبہ ایسا قحط پڑا جو مسلسل کئی سال تک جاری رہا اور اہل مکہ کے سارے سرمائے خرچ ہو گئے، اس وقت ہاشم نے شام کے سفر کا ارادہ کیا۔ وہاں اس نے بڑی مقدار میں روٹیاں خریدیں اور انہیں مکہ لا کر چور چور کیا ( کہ سخت ہوگئی تھیں) اور انہیں ایک گرم شوربے میں ڈال کر اہل مکہ کی ضیافت کی ، اسی سبب سے اسے ہاشم کے لقب سے یاد کیا جانے لگا جس کے معنی ہیں ’چور چور کرنے والا) ور نہ اس کا نام اصل میں عمرو تھا۔
نظام الدین القمی نے اپنی تفسیر میں سورة ایلاف کی بحث میں ان معلومات کا اضافہ کیا ہے کہ مذکورہ بالا بحری تا جرحبشی تھے، یہ کہ مکے والے جدے تک اپنے گدھے لیجاتے تا کہ کشتیوں سے اتارا ہوا مال مکے تک لائیں۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان حبشی تاجروں نے بعد میں اپنا حلقۂ عمل وسیع تر کر لیا اور اپنا درآمد کردہ مال خود ہی مکے تک پہنچانا شروع کیا۔ اس سلسلے میں ایک چھوٹے سے واقعے کا بلاذری (انساب الاشراف مخطوطۂ استانبول2/425) اور ابن عبد ربہ ( العقد الفريد، ۲/ ۴۷) نے ذکر کیا ہے وہ یہ کہ ایک مرتبہ قحط سالی کے زمانے میں حبشی تاجر سامان مکہ لائے مگر وہاں چند نوجوانوں نے اسے فور اً لوٹ لیا، اہل مکہ (قریش) ڈرے کہ کہیں اس کے بُرے نتائج میں حبشی سامان کی درآمد ہی بند نہ ہو جائے۔ چنانچہ انہوں نے نجاشی کے ہاں ایک سفارت بھیجی اور چند آدی بطور یرغمال بھی اس کے پرد کیے، تا کہ اسے اپنی حسن نیت کا یقین دلائیں۔ نجانی ابو یکسوم (اس زمانہ میں یکسومی خانوادے کی حبش میں حکومت تھی، معلوم نہیں اسی کی طرف اشارہ ہے، یا واقعی اس نجاشی کے بیٹے کا نام بھی یکسوم تھا، یمن کے سد مارب پر ابر ہہ کا جو کتبہ ہے اس میں ابرہہ کے ایک بیٹے کا نام یکسوم ہی لکھا ہے۔ اور اس ابرہہ کو بھی عرب مورخ ابو یکسوم کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ آیا نجاشی یعنی حبش کے بادشاہ کا بھی یہی نام تھا، یہ معلوم نہیں۔ )نے ان يرغمالوں کے ساتھ اچھا برتاو کیا۔
ابن ہشام (سیرۃ رسول اللہ ، طبع یورپ، صفحہ36 تا 38 ، 87 تا 89، اور 113 تا۱14) کے ہاں کوئی خاص نئی چیز نہیں۔
وہ مذکورہ قصے کا خلاصہ بیان کرتا اور چند اشعا رنقل کرنے پر اکتفا کرتا ہے، اس کتاب کے شارح سہیلی ( الروض الانف 1/ 48،94 تا 97 ، 11۷ ) نے کوئی نئے معلومات نہیں دیے ہیں، البتہ یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس مولف کے ہاں (ص 4۸ پر) جن حکمرانوں نے کارواں لانے کی اجازت دی تھی ان میں مصر کے بادشاہ کا ذکر ہے، یمن کے حکمران کا نام نہیں ممکن ہے سہوِ قلم ہو۔
البلاذری (انساب الاشراف، طبع مصرا/۵۹) میں مختصر ذکر ہے اور لکھا ہے کہ ہاشم نے شام وغیرہ کے حکمرانوں سے “عِصَم” یعنی حفاظت کی اطمینان دہائیاں) حاصل کیں۔
آخر میں مسعودی (مروج الذہب، طبع یورپ3/121 تا ۱۲۲) قابل ذکر ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ قریش نے بادشاہوں سے ایلاف حاصل کیا اور یہ کہ اس لفظ کے معنے ہیں امن” پھر اس مؤلف نے تائید میں مطرود الخزاعی کی بیتیں نقل کی ہیں جن میں ان مذکورہ معاہدوں کو لفظ ”عہد سے موسوم کیا گیا ہے۔
ان واقعات کی نوعیت اور حکمرانوں کا تعین:
جیسا کہ نظر آئیگا سارے ہی مؤلف اس پر متفق ہیں کہ یہ معاشی و سفارتی کارنامہ ہاشم نے انجام دیا تھا۔ یہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے پردادا ہیں، ہمارے ماخذوں میں واقعے کی تاریخ بیان نہیں ہوئی ہے لیکن اس کا تعین کرنا دشوار نہیں معلوم ہوتا۔ ابن ہشام (صفحہ ۱۰۸) کے مطابق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب کی وفات کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر آٹھ سال تھی۔ انساب بلاذری (1/84 ) میں وہ ساری روایتیں جمع کی گئی ہیں جن میں عبد المطلب کی عمر کا ذکر ہے وفات ۸۲ یا ۸۸ یا ۱۱۰ سال کی عمر میں ہوئی۔ بلاذری (حوالۂ بالا ) ابن حبيب (کتاب المحبر ص۱۷۴) نیز دیگر بعض مؤلفوں نے تو عبدالمطلب کی وفات ۱۴۰ سال کی عمر میں قرار دی ہے۔ ان سب کا اوسط یعنی 1۱۰سال قرین قیاس معلوم ہوتا ہے اور عام طور پر مورخ یہی عمر بیان کرتے ہیں یہ بھی قابل ذکر ہے کہ مورخوں (انساب البلاذری 1/84 اور محبر لابن حبیب، ص ۲۹6) کے مطابق سن رسیدگی کے باعث عبدالمطلب کی بصارت الکلیہ زائل ہو گئی تھی۔
چونکہ رسول اکرم کی ولادت ۵۶۹ء میں ہوئی اور جب آپ کی عمر آٹھ سال کی تهی تو عبدالمطلب نے وفات پائی كے ۵77ء میں اور ولادت اس سے 1۱۰ سال قبل 427ء میں ہونی چاہیے۔ ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ عبد المطلب کی ولادت مذکورۂ بالا معاہدات کے تقریباً ڈیڑھ سال بعد ہوئی اس طرح ایلاف کا زمانہ کم و بیش ۲۵ 4ء کا سمجھا جا سکتا ہے۔
اس زمانہ میں کون کہاں کا بادشاہ تھا؟
رومی:
قسطنطنیہ کا بیزنطینی (رومی) حکمراں اس زمانے میں لیون اعظم (پہلا لیون) تھا جس نے ۵۷ 4 تا 474 ،حکومت کی۔ اس کے زمانے میں افریقہ میں شدید جنگیں ہوئیں ۔ اس کے عہد میں ایران سے تعلقات پرامن تھے اس لیے ہرقسم کی معاشی سرگری کا موقع ملا ہوگا ۔ سلطنت روما کے جب دوٹکڑے ہوے تو مصر بیزنطینیوں کے قبضے میں رہا اور کہتے ہیں کہ انہوں نے تجارتی حمل ونقل کو خشکی کے کاروائیوں کی جگہ سمندری جہازوں کے ذریعے سے انجام دینا شروع کیا۔ افریقہ میں جنگ چھڑی تو لازماً سارے بحری وسائل فوج اور ہتھیار روانہ کرنے میں لگا دیے گئے ہوں گے، ان حالات میں یمن، ہندوستان اور باقی مشرقی ممالک سے جن چیزوں کی درآمد ہوا کرتی تھی اس کے لیے یہ قابل فہم اور معقول چیز ہے کہ ان خشکی کے کاروانوں کو دوبارہ زندہ کیا جائے جو مکہ سے گزرا کرتے تھے۔
ایرانی
۲۵4ء کی تاریخ پر ایران میں خسرو پرویز تخت پر نظر آتا ہے۔ نویلڈ یکے اور کرسٹنسن کے مطابق یہ 45۵ ءتا 472ء حکمران رہا مگر اس میں سہو معلوم ہوتی ہے۔ امین حبیب (کتاب االمحبر ،ص ۳۶۱ و مابعد) کا بیان زیادہ قرین قیاس ہے کہ پرویز نے 4۵۹ء سے 484ء تک حکومت کی۔ مندرجہ ذیل واقعے سے معلوم ہو سکے گا کہ اس بادشاہ کو بیرونی کاروانوں اور درآمدوں کی کیوں ضرورت پیش آئی: .
اس کی حکومت کے زمانے میں ایک قحط پڑا لیکن بادشاہ نے اس سے اچھی طرح نبٹ لیا۔ جو کچھ خزانہ شاہی میں تھا وہ اس نے
بانٹ دیا اور محصول (ٹیکس) کی وصولی بند کر دی۔ اور جتنا ہوسکتا تھا نظم و نسق کو بہتر بنا دیا۔ صرف ایک شخص کو مستثنیٰ کر دیں تو کوئی آدمی اس زمانے میں قحط کی وجہ سے نہ مرا…….. دیگر راویوں کے مطابق یہ مسلسل سات سال تک جاری رہا،نہروں اور چشموں کا پانی سوکھ گیا، درخت اور جنگل خشک ہو گئے ، زراعت اور نباتات عام طور پر مرگئے، چاہے میدانوں میں ہوں کہ پہاڑوں پر، پرندے اور جنگلی جانور بھوک سے ہلاک ہو گئے ، گھریلو جانور قحط زدگی سے اتنے کمزور ہو گئے کہ حمل و نقل کے لیے ان پر کوئی چیز لادی نہیں جاسکتی تھی۔ دریائے دجلہ میں پانی اتر گیا اور غذا کی کمی مایحتاج کی قلت اور ہرقسم کی مشکلوں کے باعث لوگ عام طور پر قحط کا شکار ہو گئے۔ اس پر بادشاہ (پرویز) نے رعایا کے نام فرمان صادر کیا اور انہیں اطلاع دی کہ انہیں محصول مالکذاری جزیہ (محصول چنلی) اور تانبہ(دیگر عارضی محصولوں) اور بیگاری سے معاف کیا جاتا ہے، یہ کہ اب وہ اپنے مالک آپ ہیں۔ اور یہ کہ وہ انہیں حکم دیتا ہے اپنی بقا وگذر کے لیے غلہ فراہم کرنے کی ساری مکن کوشش کریں، بادشاه نے ان کے نام ایک اور فرمان بھی جاری کیا، اس میں انہیں حکم تھا کہ چھپائے ہوئے جمع کیے ہوے اور غلے کے دیگر ذخیرے نکالیں جو کہ انسانوں کے لیے غذا کا کام دیتے ہوں ، آپس میں مساوات ملحوظ رکھیں، تر جیحات کو نظرانداز کر یں، امیر اور غریب میں یکسانی پائی جائے، چھوٹے بڑے میں تفریق نہ ہو۔ بادشاہ
نے انہیں متنبہ کیا کہ اگر کہیں کوئی شخص فاقہ کشی سے مرے تو اس پورے شہر یا گاؤں کے باشندوں کو سزا دی جائے گی اور بہت سخت سزا دی جائے گی۔ پرویز نے اس قحط کے زمانے میں نظم ونسق اس طرح چلایا کہ کوئی شخص بھوک کی وجہ سے ہلاک نہ ہونے پایا۔صرف ’’اردشیرخرة و فیروز“ نامی مقام پر ایک واردات ہوئی۔ پھر اس زمانے میں بادشاہ نے خدا سے رجوع کیا اور برسات کےلیے دعا کی ، خدا نے اس کی دعا قبول فرمائی اور ملک حسب سابق سرسبز ہو گیا پانی کو افراط ہوگیا اور درخت ہرے بھرے ہو گئے ۔‘ (تاریخ طبری، طبع یورپ سلسلہ اول صف ۸۷۲ تا ۸۷۴، کرسٹنسن کی فرانسیسی تاریخ ساسانیاں، ص 2۸۵ تا286)۔
یمنی:
جہاں تک یمن کے حکمران کا تعلق ہے اس سے مراد غالباً تبع بن حسان بن تبع ہے جس نے مشہور الحارث بن عمرو الکندی (مشہور شاعر امراؤ القیس بن حجر کے دادا ) کو اپنا نائب اور سپہ سالار بنا دیا تھا۔ اس کے متعلق تاریخ طبری (ص ۸۸۱ تا ۸۸۲) میں لکھا ہے:”اسے جنات نے (ویران صحرا میں) بھٹکا دیا تھا، مگر وہاں سے وہ صحیح سلامت واپس آ گیا وہ علم نجوم کا سب سے بڑا ماہر اور اپنے زمانے کے عالموں میں سب سے زیادہ عقلمند تھا، اور تاریخ گذشتہ اور آئندہ واقعات کو پیشین گوئی کی واقفیت بھی سب سے زیادہ اس کو تھی پھر وہ تبع بن حسان بن تبع بن مللبکرب بن تبع الاقرن کے نام سے حکمران بنا۔حمیری (جنوبی عرب والے) ہوں کہ دیگر عرب، سب اس سے تھراتےتھے۔ اس نے اپنے بھانجے الحارث بن عمرو بن حجر الکندی کو ایک بری فوج کا سپہ سالار بنا کر قبائل معد اور شہر حیرہ اور اس کے آس پاس علاقے کی طرف روانہ کیا، اس زمانے میں حیرہ کا بادشاہ النعمان بن امراؤ القیس (المعروف بہ ابن الشقیقہ ) تھا، حارث وہاں پہنچا اور لڑائی کے بعدنعمان اور اس کے چند رشتہ داروں کو قتل کیا اور اس کی فوج کو شکست دی صرف بادشاہ کا بیٹا جو قبیلہ نمر کی ماء السماء نامی بیوی کے بطن سے پیدا ہوا تھا، اس قتلِ عام سے جان بچا کر بھاگ نکلا المنذر کا خانواده حکومت سے محروم ہو گیا اور الحارث بن عمرو اس کے علاقے کا بھی مالک ہو گیا ۔ یہ حارث بہت دن تک حکمران رہا۔ اس نے اپنے بیٹوں کو فوج دے کر بھیجا کہ شام اور غستانیوں کی حکومت بھی چھین لے۔ سویڈن کے مستشرق اولنڈر نے اپنی انگریزی کتاب:
(OLINDER, THE KINGS OF KINOA OF THE FAMILY OF AKILAL MURAR)
یعنی خانوادۂ آكل المرار کے حکمرانان کنده ، مطبوعہ لوند، ۱۹۲۷ء ص ۲۸) میں اس کے متعلق لکھا ہے:”یہاں جس حمیری حکمران کی طرف اشارہ ہے اسسے مراد ہارتمان صفحہ497
(HARTMANN , ARABISCHE FRAGE) کے مطابق شرحبیل یکف بن شرحبيل يعفر ہے ۴۹۷ جس کا ذکر 4۲۷ء کے ایک کتبے میں ملتا ہے (اس بارے میں دیکھو گلازر، ص ۲۶)
(GLASER ZWEI INSCHHIFTEN) اس شرحبيل يعر کا ذکر ریکمانس (GRYKAMAN) نے بھی مجلہ موزیون (MUSEON) جلد 6۱ ، شماره ۳، ۴، ۱۹۴۸ء ص ۲۳۳ میں اپنے فرانسیسی مضمون (احمد فخری کے دریافت کرده یمنی کتبے ) میں کیا ہے، اس گماں کی تائید اس واقعے سے بھی ہوتی ہے کہ حضر موت میں بمقام را بیہ ہر سال ایک میلہ لگتا تھا جس کے متعلق مورخ لکھتے ہیں:
’’وہاں جانا ہوتا تو قریشی تا جر تو خانواده آكل المرار سے خفاره بدرقہ ) حاصل کرتے اور اس میلے کو جانے والے دوسرے لوگ حضرموت کے قبیلہ آل مسروق بن وائل سے خفا رہ حاصل کرتے، یہ دونوں قبیلے خفارہ مفت مہیا کرتے لیکن قریش کی سر پرستی کے باعث قبیلۂ آكل المرار سب پر غالب ہو گیا ۔
(ابن حبیب کی کتاب المحبر ، ص ۲6۷، اور المرزوقی کی الازمنہ و الامکنہ ،۱6۵ / 2 ، ہر دو مطبوہ حیدرآباد دکن)
حبشی
حبش کے سلسلے میں ہمیں یہ تو معلوم ہے کہ اس زمانے میں مشہور یکسومی خانواده وہاں حکمران تھا ، لیکن ان بادشاہوں کے سلسلے میں زیر بحث زمانے کے متعلق کوئی تاریخی معلومات حاصل نہیں۔ اگر بعد کے زمانے کے واقعات کو معیار قرار دیا جائے تو اس میں عربی مورخوں کی بیان کردہ باتوں کو ناممکن قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں پائی جاتی۔
مصری:
باقی رہتا ہے بادشاہ مصر، جس کا ذکر صرف سہیلی کے ہاں ہے، اگر یہاں کوئی غلطی یا سہو قلم نہیں ہے تو اس سے مراد کوئی یونانی گورنر ہو گا ، بعد کے زمانے میں مکے والے تاجر اکثر مصر جایا کرتے نظر آتے ہیں لیکن مصر کے کسی بادشاہ کا، جیسا کہ سہیلی نے ذکر کیا ہے۔ کوئی پتا نہیں چلتا۔
مکی تجارت کا نظام:
مکی تاجروں نے بین المما لک تعلقات کا جو وسیع اور حیرت انگیز سلسلہ قائم کیا اس کی جتنی بھی داد دی جائے کم ہو گی۔ جب تک پرانی صدیوں کی تجارتی روایتیں اور تجربے نہ رہے ہوں، ایسا نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے تجارت کے سلسلے میں جو تعلقات پیدا کیے اور( ایلاف کے ذریعے سے ) جو اجازت نامے حاصل کیے وہ کوئی بے معنی اور مردہ چیز نہ ثابت ہوئے بلکہ ایک زندہ حقیقت تھے، اس کا ثبوت قدیم قومی تاریخ کے متخصص ابن الکلبی کے ہاں موجود ہے۔ اور “اسواق الغرب‘‘ کا اس نے جو جیتا جاگتا تذکرہ کیا ہے، دیکھو ابن حبیب کی کتاب المحبر ،ص ۲۶۳
تا ۲۶۸ – المرزوقی کی الازمنہ والا مکنہ2/161 تا۱68 – الیعقوبی کی تاریخ ، طبع ورب ا/۳1۳ تا ۳۱۵۔ قلقشندی کی نہایۃ
الارب طبع مصرص۴64) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مکہ کے تاجر بیزنطینی علاقے میں جاتے تھے، اور ایرانی بستیوں میں بھی جہاں وہ مقای باشندوں اور تاجروں کے علاوہ ہندوستانی اور چینی تاجروں سے بھی ملتے تھے۔ یہ میلے ایک مستقل ادارہ تھے اور ہر سال معینہ وقت پر شروع ہوتے تھے، ایک مقام کے بعد دوسرے مقام کا میلہ کچھ اس جغرافی ترتیب سے مقرر تھا کہ سارے عرب کی چکر ہو جاتی تھی نیز جنوبی فلسطین اور جنوبی عراق کی بھی۔ ان میلوں کا آغاز ( ماه محرم میں) عرب کے شمال سے شروع ہوتا ۔ پھر بعد کے مہینوں میں وہ مشرق میں لگتے، پھر جنوب میں، پھر مغرب میں سال کے اواخر (ذی حجہ) میں۔ مزید برآں خفارسے (بدر قے) کا موثر نظام موجود تھا جس کے ذریعے سے کاروان والوں کی جان و مال کی بخوبی حفاظت ہوتی ، عرب کے مختلف علاقوں (قبیلوں) میں حفاظت کا اطمینان حاصل کرنے کے لیے ظاہر ہے کہ پیشگی ان قبیلوں سے سفارتی کارکردگی کے ذریعے سے معاہدے کیے جائیں۔ اس پر مستزاد حرام مہینوں (اشہر حرم) کا ایک ادارہ بھی پایا جاتا تھا جس کے باعث ہر سال دو مرتبہ مکہ کا راستہ سارے عرب کے لوگوں کے لیے کھل جاتا اور پرامن ہو جاتا تھا، حج اکبر کے زمانے میں مسلسل تین مہینے تک یعنی ذیقعدہ، ذی الحجہ اور محرم میں، اور حج اصغر یا عمرے کے زمانے میں ایک ماہ کے لیے پورے رجب میں لڑائی بھڑائی حرام سمجھی جاتی اور قافلوں تک کو کوئی چھیڑ نہ سکتا، جہاں تک خود اہل مکہ کا تعلق ہے، ان کے لیے بسل کا مشہور ادارہ پایا جاتا تھا (جس کا ذکر سیرة ابن ہشامی ص 6۶ میں اور فیروز آبادی کی القاموس میں مادہ “ب س ل” کے تحت ملے گا) اور چند مکی قبیلوں کو پورے آٹھ مہینے …………. اور ہمارے خیال میں اشہر حرم کے چار مہینوں کے علاوہ کہ اس سے سارے ہی لوگ متمتع ہوتے، گویا سال تمام ……….. سارے عرب میں امن حاصل رہتا۔ اور وہ جہاں اور جس قبیلے کے علاقے میں چاہتے جاسکتے، یہ امتیاز اصل میں تو مکے کے چند خانوادوں کو حاصل ہوا تھا۔ لیکن اس سے دوسرے لوگ بھی بہ آسانی استفادہ کر سکتے۔ یعنی وہ ان خاندانوں کے کسی فرد کا خفارہ حاصل کر لیں تو وہ ان کے ساتھ ہر جگہ جاتا اور حفاظت مہیا کر سکتا۔ اس خدمت کا اس شخص کو حسب معمول کوئی معاوضہ دیدیا جاتا۔
خلاصہ:
اس بحث سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے جزیرہ نمائے عرب اسلام سے پہلے تجارتی اغراض کے لیے ایک وفاق میں منسلک ہو کر متحد ہو چکا تھا، اس سے اس سیاسی اتحاد کا راستہ بن گیا جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کارنامہ ہے۔ مذکورہ بالا تاریخی واقعات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قریش مکہ نے جووسیع اور بار آور سفارتی سرگرمی دکھائی وہ عرب ہی نہیں عربوں کے نسلی و جغرافیائی وسیا سی حدود کے باہر تک بھی مؤثر ہو چکی تھی۔
ان سارے بیانات کو کوئی شخص چاہے تو محض خیالی کہہ کر رد کرسکتا ہے اور مقصد یہاں یہ ہے کہ اس مواد کو جومنتشر پایا جاتا تھا یکجا، اور اکٹھا کر دیں محض گمان کے ذریعے سے واقعات تراشنے خواہش کو حقیقت سمجھنے اور” ہوا ہونا چاہیے” کہنے کے مقابلہ میں دستاویزوں اور تاریخی بیانوں کو ہر حال زیادہ وقعت دینی پڑے گی، ہماری رائے میں یہ ناممکن نہیں کہ ان عربی بیانات میں کہیں کہیں کچھ مبالغہ کیا گیا ہو لیکن ان کو محض بےبنیاد نہیں کہا جا سکتا۔
ضمیمہ:
اوپر کتاب المنمق مؤلفہ ابن حبیب کا ذکر آیا اسے حال میں دائرة المعارف نے چھاپ بھی دیا ہے۔ جن لوگوں کی اس تک دسترس نہ ہو ان کے فائدے کے لیے اس کے دونوں بابوں کو یہاں مع ترجمہ نقل کیا جاتا ہے:
(1) حدیث الا بلاف (1) ایلاف کا قصہ
عن ابن الكلبي قال: كان ابن علی کی روایت ہے کہ ایلاف کا
من حديث الايلاف ان قصہ یوں ہوا کہ (مکے کے باشندے
قريشا كانت تجارا، یعنی) قریش تاجر لوگ تھے لیکن ان کی
وكانت تجارا تھم لا تعدو تجارتی سرگرمیاں مکے سے آگے نہ بڑھتی
مكة، انما يتقدم عليهم تھیں بلکہ اپنی لوگ سامان لیکر آ تے تو یہ
الاعاجم بالسلع فيشترون ان سے خریدتے، پھر مکے والوں کو بھی
منهم ثم يتبا يعون بينهم و بیچتے اور آس پاس رہنے والے عربوں کو
يبيعون من حولهم من بھی۔ ان کی تجارت کا یہی حال رہا تا آں کہ
العرب فكانت تجارتهم ہاشم شام کے سفر پر روانہ ہوا اور قیصر3
كذلك حتى ركب هاشم کے سکونتی علاقے میں ٹھہرا، اس وقت تک
بن عبدمنان الى الشام ہاشم کا نام عمرو تھا۔ وہ ہر روز ایک بکری
فنزل بقیصر واسم هاشم كاٹتا اور گوشت اور روٹی سے پکائے
يومئذ عمرو، فكان يذبح جانے والے ثرید کے پیالے دسترخوان پر
كل يوم شاة فيصنع جفنة رکھے جاتے اور دعوت عام ہوتی کہ آس
ثرید ويد عومن حوله پاس کا ہرشخص آ کر کھائے۔ کہتے ہیں کہ
فيا كلون وكان هاشم ہاشم گٹھے ہوے بدن کا اور بہت
فيمازعموا أحسن الناس خوبصورت شخص تھا، اس کی اطلاع قیصر
عصبا واجملهم فذ کرلقيصر تک پہنچائی گئی کہ یہاں ایک قریشی آیا
وقيل: ههنا رجل من قريش ہے جو روٹی کو چورا چورا کر کے اس
یهشم الخبز ثم يصب شور با ڈالا پھر اس میں گوشت ملاتا ہے۔
عليه المرق و يفرغ عليه بات یہ ہوئی کہ عجمی لوگوں کی عادت یہ تھی
عليه اللحم وانما كانت الاعاجم وہ شور با تھالیوں میں رکھتے اور تھوڑی سی
تصنع المرق في الصحاف روٹی بطور سالن کے چکھتے۔ اور ای لیے
ثم يو تدم بالخبز فلذ لك اسے ’ہاشم کا لقب دیا گیا جس کے معنی
سمی هاشم. وبلغ ذلك ہیں چورا چورا کرنے والا ۔ قیصر کو اطلاع
قیصر فدعا به فلما رأه ملی تو اسے بلایا۔ جب ملاقات اور گفتگو کی
وكلمه أعجب به. فكان تو بہت اچھا اثر لیا چنانچہ وہ اسے اکثر بلایا
يرسل اليه فيدخل عليه، کرتا اور ملاقات کرتا۔ جب ہاشم نے اپنا
فلما رأى مكانه منه قال له رسوخ دیکھا تو ایک دن اس سے کہا
هاشم: “ايها الملك أن لي ”اے بادشاہ، میری بھی ایک قوم ہے جو
قوماً وهم تجار العرب فان سارے عرب کی تجارت کی مالک ہے
رأيت ان تكتب لهم اگر مناسب معلوم ہو تو انہیں نوشتہ دے کر
كتاباتؤ منهم وتؤ من جان کی حفاظت کا بھی یقین دلا اور تجارتی
تجارتهم فيقدموا عليك بما مال کی حفاظت کا بھی، تا کہ وہ حجاز کے
يستظرف من ادم الحجاز اچھے چمڑے اور کپڑے لا کر تمہارے ہاں
وثيابه فيكونوا يبيعونه بیجا کریں اور یہ تمہیں زیادہ سستا پڑے گا
عندكم فهو ارخص نانچہ قیصر نے اسے ایک نوشتہ دیا کہ جو
عليكم فكتب له كتابا بھی عرب آئے حفاظت سے رہیگا ۔ ہاشم
بأمان من أتى منهم فاقبل یہ نوشتہ لے کر واپس روانہ ہوا شام کے
هاشم بذلك الكتاب فجعل راستے میں جس جس عرب قبیلہ سے گزرتا
کلمامر بحى من العرب اس کے سرداروں سے ایلاف حاصل کرتا
بطريق الشام اخذ ایلاف کے معنے ہیں ان کی سرزمین میں
من اشرافهم ایلافا فالايلاف کسی حلیفی کے بغیر رہ گزر کا) امن
ان يامنوا عندهم في حاصل ہو، اور یہ امن سب لوگوں کو حاصل
ارضهم بغير حلف عليهم، ہو، اس کے معاوضے میں قریش ان قبائل
و انما هوامان الناس وعلى کا سامان تجارت خود لیجائیں گے حمل و
أن قريشا تحمل لهم بضائع نقل کے مصارف نہ مانگیں گے اور بیچنے
فيكفونهم حملانها ويردون کے بعد قیمت اور نفع دونوں ان کو واپس
اليهم راس مالهم وربحهم ادا کر دیں گے، اس طرح ہاشم نے اپنے
فاخذهاشم الايلان ممن اور شام کے درمیان جتنے قبیلے تھے سب
بينه وبين الشام حتى قدم سے ایلاف حاصل کیا اور جب وہ مکہ پہنچا
مكة فاتا هم باعظم شئی تو (خوشخبری) لا یا اس سے بڑی کوئی چیز
أتوابه. فخرجوا بتجارة ممکن نہ تھی پھر سب لوگ ایک بڑا تجارتی
عظيمة وخرج هاشم کاروان لے کر نکلے۔ ہاشم عربوں کے
يجوز هم ويوفيهم ایلافهم جس جس قبیلے سے گزرتا اس سے ایلاف
الذي اخذلهم من العرب، کی شرط کی وعدہ وفائی کرتا رہا اور یہ وعدہ
فلم يبرح يوفيهم ذلك وعدہ وفاقی سب کے ساتھ ہوئی اور اپنے
ويجمع بينهم وبين اشراف ہمراہیوں کے ساتھ قبائلی سرداروں کو بھی
العرب حتى ورد بهم الشام جمع کرتا رہا اور سب کو ساتھ لیکر شام پہنچا
واحلهم قراها فمات في اور وہاں کے شہروں میں ٹھہر الیکن وہ اسی
ذلك السفر بغزة من الشام۔ سفر میں شام (فلسطین) میں بمقام غزه فوت ہو گیا۔
(حذفنا المراثی) (اصل میں یہاں کئی مرثیے ہیں جو حذف کیے جاتے ہیں)
فلما مات هاشم، خرج جب ہاشم کی وفات ہو گئی تو اس کا بھائی
المطلب بن عبد مناف إلى مطلب بن عبدِ مناف یمن گیا اور وہاں
اليمن فاخذمن ملوکھم کے حکمرانوں سے عہد لیا کہ جو قریش ان
عهد لامن تجر قبلهم من کے ہاں تجارت کے لیے آئے اسے امن
قریش، ثم أقبل ياخذ رہے گا پھر راستے میں جتنے عرب قبیلے پڑتے
الايلاف ممن مربه من تھے ان سے ایران حاصل کرتا گیا اور
العرب حتى اتي مكة على ویسے ہی معاہدوں کے ساتھ مکہ آیا جیسے
مثل ماكان هاشم اخذ ہاشم نے کیا تھا، عبد مناف کے بچوں میں
وكان المطلب اکبر ولد مطلب سب سے بڑا بیٹا تھا اسے فیض
عبد منان وكان يسمیٰ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے وہ جس وقت
الفيض ، فهلك المطلب (مکرر) یمن کو جا رہا تھا تو یمن میں
بردمان من اليمن وهوراجع بمقام ردمان فوت ہو گیا ۔ عبدشمس بن عبد
الى اليمن و خرج مناف حبش کے بادشاہ کے پاس روانہ ہوا
عبد شمس بن عبد مناف اور اس کے ہاں تجارت کے لیے آنے
الى ملك الحبشة فاخذنه والے قریشیوں کے وحق میں ایک نوشتہ اور
كتابا و عهدا لامن تجر قبله عہد حاصل کیا، پھر ان قبائل سے بھی
من قريش، ثم أخذ الأيلاف ایلاف لیا جو راستے میں پڑتے ہیں اور وہ
ممن بينه وبين العرب حتی اس طرح کامیاب) مکہ واپس آیا ۔ عبد
بلغ مكة وهلك عبدشمس شمس کی وفات کے میں ہوئی اور اسے
بمكة فقبر بالحجون، وكان حجون میں دفن کیا گیا۔ عمر میں یہ ہاشم سے
اكبر من هاشم۔ بھی بڑا تھا۔
وخرج نوفل بن عبدمناف اور نوفل بھی سفر پر نکلا، یہ عبد مناف کے
وكان اصغر ولد عبد مناف بیٹوں میں سب سے چھوٹا تھا ………… وہ عراق
……… فخرج إلى العراق روانہ ہوا اور کسریٰ سے قریشی تاجروں
فاخذ عهدا من کسریٰ کے حق میں عہد حاصل کیا۔ پھر ان سب
لتجار قريش ثم أقبل ياخذ عرب (قبائل) سے بھی ایلاف حاصل
الآيلاف ممن يمربه من کرتا گیا جن کے علاقوں سے گزرنا پڑا۔
العرب حتى قدم مكة ثم اور اس طرح مکہ واپس آیا پھر جب وہ
رجع الى العراق فمات ( مکرر) عراق روانہ ہوا تو عراقی سرزمین
بسلمان من ارض العراق میں بہ مقام سلمان فوت ہو گیا۔
وكان بنو عبدمناف هؤلاء عبد مناف کے یہ بیٹے وہ لوگ ہیں جن
اول من رفع الله به قریشا۔ کے ہاتھوں ہی سب سے پہلے خدانے
لم تر العرب مثلهم قط اسمع قریش کی قدرومنزلت بلند کی، ان لوگوں
و لا اعلم و لا اعقل و لا سے زیادہ فیاض، عالم عقلمند اور خوبصورت
اجمل انما كانوا نجوما من عربوں نے بھی نہ دیکھے تھے، حقیقت میں
النجوم… کتاب المنمق (ص ۳۱ تا ۴۰) یہ آسمان کے تارے ہی تارے تھے۔
(۲) حدیث الرحلتین (۲) دو کاروانی سفروں کا قصہ
الكلبي قال: كانت قریش کلبی کا بیان ہے کہ قریش کو (سالانہ ) دو
تعودت رحلتين احد اهما کاردانی سفروں کی عادت بھی ایک
في الشتاء الى اليمن سردیوں میں یمن کی طرف، دوسرے
والاخرى في الصيف الى گرمیوں میں شام کی طرف وہ اسی عادت
الشام فمكثوا بذلك حتى پر قائم رہے تا آں کہ یہ محنت ان پر بار
اشتد عليهم الجهد. گزرنے لگی پھر تبالہ اور جرش نیز یمن کے
واخصب تباله و جرش ساحلی علاقے کے باشندوں کی بن آئی،
واهل ساحل البحر من چنانچہ ساحلی علاقے کے لوگ سامان
اليمن، فحمل اهل الساحل تجارت سمندری راستوں سے، اور
في البحر و حمل اهل البر با اندرونی علاقے والے اونٹوں پر سامان
لمحصب فامتار لاد کر آنے لگے۔ ساحل والے جدہ میں
اهل مكة ماشاوا، وكفاهم
الله الرحلتين كانوا يرحلون لنگر ڈالتے اور خشکی والے (مکے کے
إلى اليمن والشام فأنزل الله مضافات میں) محصب تک سامان
عزو جل: “لايلاف قریش پہنچاتے۔ اور یوں کے والے جو چاہتے
ايلافهم رحلة الشتاء ما یحتاج سامان حاصل کر سکتے ، اور وہ یمن
والصيف» وقوله: “اٰمنهم اور شام کے جو دو سفر کیا کرتے تھے ان
من خوف” یرید خوف سے خدا نے انہیں نجات دلائی۔ قرآن
العدو، و خوف الجذام میں خدا نے یہی یاد دلانے کے لیے وحی
فليس في الارض قرشی فرمائی ہے کہ قریش کے ایلاف کے
جذم. وایلاف قریش یعنی باعث، ان کے ایلاف ہی کے باعث سرما
داب قريش رحلة الشتاء اور گرما کا کاروان چلتا ہے۔ نیز یہ آیت
والصيف فاصابت قریش “اور اس نے خوف پر انہیں امن مہیا
سنوات ذهبن بالا موال کیا۔ مراد یہ ہے کہ دشمن اور جذام
فخرج هاشم الى الشام فامر کے خوف سے چنانچہ ساری سرزمین میں
بخبز كثير فخبز له، فحمله کوئی جذام زدہ قریشی نہیں ملے گا۔ اور
في الغرائر على الابل حتى ایلاف کے معنے ہیں قریش کی سردی اور
اتی مكة فهشم ذالك گرمی کے کاروانی سفر کی عادت۔ پھر
لخبز و نحر تلك الابل ثم قریش کے لیے مسلسل کئی سال قحط پڑا
طبخها والقي تلك القدور جس سے ان کا سارا اندوختہ ختم ہو گیا۔
على ذلك الخبز فاطعم اس پر ہاشم شام روانہ ہوا اور وہاں بڑی
اهل مكة و اشبعهم وكان مقدار میں روٹیوں کی فرمائش دی اور جب
ذلك أول الحياة روٹیاں تیار ہوئیں تو اس نے انہیں تھیلیوں
(کتاب المنمق (ص ۲6۲ تا میں بار کر کے اونٹوں پر لادا اور لیکر مکہ آیا
264 یہاں اس نے ان روٹیوں کو چورا چورا کیا
اور (ان لانے والے) اونٹوں کو ذبح
کر کے پکوان کیا (گوشت اور شوربے)
یہ دیگیں اس روٹی پر انڈیلی گئیں اور یہ اس
نے مکے والوں کو کھلایا اور پیٹ بھر کر کھلایا
اور یہ (وہاں) نئی زندگی کا آغاز تھا۔
(ابتدائی فرانسیسی اشاعت ۱۹۵۷ ء ضروری تصحیحات
کے ساتھ مولف ہی نے ترجمہ کیا)
ماہنامہ البلاغ – کراچی – جون ۱۹6۸ء)