سوال: ام ورقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کون تھیں؟ کیا صرف وہی حافظہ تھیں یا جناب ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی حافظہ قرآن تھیں؟
جواب: حضرت ام ورقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ایک انصاری عورت تھیں جو بہت پہلے ایمان لائی تھیں چنانچہ ان کے متعلق لکھا ہے کہ جنگ بدر (٢ھ) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے سے روانہ ہوئے تو انہوں نے اپنی خدمات پیش کیں کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلیں۔ میں اسلام کے دشمنوں سے جنگ کرنا چاہتی ہوں۔ ان کے متعلق ایک اور روایت ہے جو اس سے بھی زیادہ عملی یا علمی دشواریاں پیدا کرے گی وہ یہ کہ حضرت ام ورقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو رسول اللہ نے ان کے محلے “اہل دارہا” نہ کہ “اہل بیتھا” کی مسجد کا امام مامور فرمایا تھا جیسا کہ سنن ابی داؤد اور مسند احمد بن حنبل میں ہے اور یہ بھی کہ ان کے پیچھے مرد بھی نماز پڑھتے تھے اور یہ کہ ان کا مؤذن ایک مرد تھا۔ ظاہر ہے کہ مؤذن بھی بطور مقتدی ان کے پیچھے نماز پڑھتا ہو گا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عورت کو امام بنایا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اس حدیث کے متعلق یہ گمان ہوسکتا ہے کہ یہ شاید ابتدائے اسلام کی بات ہو اور بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو منسوخ کر دیا ہو لیکن اس کے برعکس یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ام ورقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے تک زندہ رہیں اور اپنے فرائض سر انجام دیتی رہیں۔ اس لیے ہمیں سوچنا پڑے گا۔ ایک چیز جو میرے ذہن میں آئی ہے وہ عرض کرتا ہوں کہ بعض اوقات عام قاعدے میں استثناء کی ضرورت پیش آتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے استثنائی ضرورتوں کے لیے یہ استثنائی تقرر فرمایا ہو گا۔ چنانچہ میں اپنے ذاتی تجربے کی ایک چیز بیان کرتا ہوں۔ پیرس میں چند سال پہلے کا واقعہ ہے کہ ایک افغان لڑکی طالب علم کے طور پر آئی تھی۔ ہالینڈ کا ایک طالب علم جو اس کا ہم جماعت تھا، اس پر عاشق ہو گیا۔ عشق اتنا شدید تھا کہ اس نے اپنا دین بدل کر اسلام قبول کر لیا۔ ان دونوں کا نکاح ہوا۔ اگلے دن وہ لڑکی میرے پاس آئی اور کہنے لگی کہ بھائی صاحب میرا شوہر مسلمان ہو گیا ہے اور وہ اسلام پر عمل بھی کرنا چاہتا ہے لیکن اسے نماز نہیں آتی اور اسے اصرار ہے کہ میں خود امام بن کر نماز پڑھاؤں۔ کیا وہ میری اقتدا میں نماز پڑھ سکتا ہے؟ میں نے اسے جواب دیا کہ اگر آپ کسی عام مولوی صاحب سے پوچھیں گی تو وہ کہے گا کہ یہ جائز نہیں لیکن میرے ذہن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طرز عمل کا ایک واقعہ حضرت امام ورقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ہے۔ اس لیے استثنائی طور پر تم امام بن کر نماز پڑھاؤ۔ تمہارے شوہر کو چاہیے کہ مقتدی بن کر تمہارے پیچھے نماز پڑھے اور جلد از جلد قرآن کی ان سورتوں کو یاد کرے جو نماز میں کام آتی ہیں۔ کم از کم تین سورتیں یاد کرے اور تشہد وغیرہ یاد کرے۔ پھر اس کے بعد وہ تمہارا امام بنے اور تم اس کے پیچھے نماز پڑھا کرو۔ دوسرے الفاظ میں ایسی استثنائی صورتیں جو کبھی کبھار امت کو پیش آسکتی تھیں۔ ان کی پیش بندی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ انتخاب فرمایا تھا۔ ہمارے دوست سوال کرتے ہیں کہ کیا اور عورتیں بھی حافظہ تھیں؟ مجھے اس کا علم نہیں، ان معنوں میں کہ حافظ ہونے کا صراحت کے ساتھ اگر کسی کے بارے میں ذکر ملتا ہے تو صرف انہیں کے متعلق۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا یا ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا وغیرہ کے متعلق میں نے کبھی کوئی روایت نہیں پڑھی کہ وہ حافظہ تھیں۔ انہیں کچھ سورتیں یقیناً یاد ہوں گی اور ممکن ہے کہ بہت سی سورتیں یاد ہوں لیکن ان کے حافظہ قرآن ہونے کی صراحت مجھے کہیں نہیں ملی، اس کے سوا اور میں کچھ عرض نہیں کروں گا۔
(خطباتِ بہاولپور از ڈاکٹر محمد حمیداللہ)