ڈاکٹر محمد حمید اللہ بنام مدیر ماہنامہ الحق، شمارہ مئی 1983ء
21 رجب 1403ھ
محترم و مکرم زاد فیضکم۔
السلام علیکم وحمتہ اللہ وبرکاتہ
موقر مجلہ الحق کا شمارہ جمادی الآخر 1403ھ پہنچا، سراپا ممنون ہوں۔
فاضل محفوظ خان صاحب کو بھی ص 9 پر اعتراف ہے کہ قرآن مجید میں کہیں ذکر نہیں ہے کہ سمندر نے فرعون کی لاش کو ساحل پر پھینکا ہو۔ اس مفہوم کی کوئی حدیث نبوی بھی نہیں ملتی۔ لاش کا بچ رہنا بھی معجزہ ہے چاہے سمندر واپس پھینکے یا آدمی ہی اسے نکالیں۔ نتیجہ واحد ہے۔ جب قرآن و حدیث سے انکار نہیں اور بعض ہمارے آپ کے جیسے غیر معصوم آدمیوں کی رائے سے اختلاف کیا جائے (کہ اختلاف امتی رحمتہ) تو یہ کفر نہیں سمجھنا چاہے۔
جو اقتباسات انھوں نے اپنے ہم رائے لوگوں سے نقل کئے ہیں وہ سب کے سب اسرائیلیات سے ماخوذ ہیں۔ کوئی بھی خدا یا رسول کے استناد سے نہیں۔ مولانا مودوی مرحوم زندہ ہوتے تو میں ان سے ان کا ماخذ پوچھتا۔ وہ حق پسند تھے اور اپنی غلطیوں کو مان لیتے تھے۔ متعدد تجربوں میں سے ایک کا ذکر کرتا ہوں۔ تفہیم القرآن ج 4 ص 116 میں ام المومنین حضرت جوریہ کو یہودی خاندان سے بتایا ہے وہ بنی المصطلق یعنی خزاعہ کی ثھیٹ عرب تھیں۔ میرے استفسار پر مرحوم نے وعدہ کیا تھا کہ آئندہ ایڈیشن میں اصلاح کر دیں گے۔
قرآن میں تفصیل نہ ہو تو خلا کو پر کرنے کے لیے ہمارے مفسر اکثر نو مسلم یہودیوں سے مدد لیتے رہے ہیں ان میں سے ایک کا ذکر کرتا ہوں۔ صحیح بخاری کی کتاب الاعتصام بالسنہ، باب 25 میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کعب الاحبار نو مسلم یہودیوں میں سب سے سچے ہیں ( من اصدق ھؤلا) اس کے باوجود (وان کنا لنبلو علیہ الکذب) تابد یگراں چہ رسد؟ اسرائیلیات سے حضرت ابن عباس جیسے صحابی بھی استفادہ کریں تو اس کی حیثیت اسرائیلیات سے بڑھ نہیں جاتی۔ اسی جنوری نمبر میں جس سے محترم محفوظ خان صاحب نے استدراک فرمایا ہے، ہمارے اپنے عریضے کے عین مقابل کے صفحے پر مولانا ابو الکلام آزآد مرحوم کی ایک پیاری مشورت و نصحیت چھپی ہے۔ کاش وہ بھی اس سے استفادہ فرمائیں جس طرح میں کر رہا ہوں۔
میں عرض کر چکا ہوں کہ تورات کے عبرانی نسخے میں غرق فرعون کے مقام کو بحر القصب کا نام دیا گیا ہے (سمندر کے کھارے پانی میں قصب گھاس کہاں اگ سکتا ہے؟) اور لاطینی ترجمے کے وقت کیتھولک پادریوں نے تحریف کر کے بحر احمر لکھ دیا کہ یہ زیادہ دلکش معلوم ہوا۔ معجزہ دریائےنیل میں بھی ہو سکتا ہے، سمندر میں بھی، دریائے نیل کے ایک مشہور واقعے سے جو ابن کثیر، ابن عبد الجکیم، ابن تغری بردی وغیرہ نے ذکر کیا ہے۔
آپ ناظرین کو دلچسپی ہو گی۔
مصر کی فتح پر مقامی کسان حضرت عمرو العاص گورنر کے پاس آئے اور کہا کہ مصر کی زندگی دریائے نیل کی سالانہ طغیانی پر ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ سالانہ ایک دوشیزہ کو بھینٹ چڑھایا جائے۔ حضرت ابن العاص نے روک دیا کہ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ اس سال حبشہ میں بارش میں تعویق ہوئی اور مصری کسان ترک وطن کی تیاری کر کے اتمام حجت کے لیے مکرر حضرت ابن العاص کے پاس آئے۔ انھوں نے خلیفہ حضرت عمر کوخط لکھا۔ وہاں سے فوراً جواب آیا کہ ممانعت بالکل ٹھیک ہے۔ ایک خط ملفوف ہے وہ مرسل الیہ یعنی دریائے نیل کو بھیج دو۔ اس خط میں لکھا تھا، ”اے نیل اگر تو اپنی مرضی سے سیلاب لاتا ہے تو ہمیں اس کی ضرورت نہیں، مت لا۔ لیکن اگر یہ تجھ میں اللہ لاتا ہے تو ہم اللہ سے دیا کرتے ہیں کہ وہ تجھ میں سیلاب لائے“۔ یہ خط گورنر نے دریا میں ڈال دیا۔ صبح ہونے تک دریائے نیل اپنی سطح سے سولہ ہاتھ بلند ہو گیا۔
اگر یہی بات فرعون کے زمانے میں بھی خدا نے کسی اور غرض کے لیے کی ہو اور دریائے نیل کی موجیں کالطود العظیم ہو گئی ہوں (یا ایک اور آیت میں فی موج کالجبال ہوں جو سمندر نہیں تنور سےنکلے ہوئے پانی کے متعلق ہے) تو حیرت کی کیا بات ہے؟ معجزے کے لیے سمندر کا لزوم نہیں۔
فرعون کی لاش پر نمک کا پایا جانا ایک داستان پارینہ ہے۔ اس بارے میں نو مسلم ڈاکٹر موریس بوکائی نے جسے رئیس مصر سارات نے فرعون کی لاش کی علمی تدقیق پر مومور کیا تھا لکھا ہے کہ ”پرانے فرنگی نباش جنھوں نے فرعون کی لاش ڈھونڈ نکالی تھی طبیب نہ تھے اور جانتے تھے کہ مصر میں لاشوں کو کس طرح مومیائی کی جاتی تھی۔ ہم اب یہ جانتے ہیں کہ لاش پر نمک سمندری پانی سے نہیں مومیائی کی عملیات میں مستعملہ دواؤں کے باعث ہے“۔
حمام فرعون یا جبل فرعون مقامی افسانوں سے تعلق رکھتا ہے جس کی کوئی علمی اساس نہیں۔ اسی مصر میں اب تک ایک باغ بتایا جاتا ہے کہ حضرت مریم پر حضرت عیسی کی ولادت کے وقت جس درخت سے کجھوریں گری تھیں وہ اسی باغ کا درخت تھا۔ اور سب جانتے ہیں کہ یہ معجزہ فلسطین میں پیش آیا تھا مصر میں نہیں۔
لاش کو دریا میں سے باہر نکالے بلکہ ہر چیز کے لیے اسباب پیدا کرتا ہے کبھی فرشتوں سے تو کبھی انسانوں سے، مگر کام کراتی ہے خدا ہی کی مشیت۔
میں نے کبھی کہیں لکھا تھا کہ فرعون کے ساتھ ”ایک لاکھ سے زائد فوج“ غرق ہوئی کہ لاش کو پہچاننے میں غوطہ خوروں کو دشواری ہو۔ فرعون کے شاید فوجی رتھ سے پانی میں گرتے ہی ہمراہی پانی میں کود پڑتے ہیں۔ مقام اور شاہی لباس سے نشاندہی میں کیا دشواری ہو؟
علمی معاملات میں لکیر کی فقیری کام نہیں دیتی۔ اللہ کا فرمان ہے کہ قل رب زدنی علما۔ موجودہ بحث میں مثلاً مصر کا اٹلاس دیکھیں بنی اسرائیل کا مسکن جو بوقت خروج تھا اور دہانۂ نیل (ڈلٹا) میں تھا، وہ کہاں تھا۔ دہانۂ نیل میں دریا کی جو پندرہ بیس شاخیں ہیں ان کو عبور کرنا اور فرعونستان سے نجات پانے کے لیے جانا ہے تو صحرائے تیہ میں کس طرح جانا ممکن ہے؟ دہانۂ نیل سے بحر احمر کتنی مسافت پر ہے؟ فرعون یقینا خروج کے وقت ڈالٹا میں نہ تھا بلکہ ممفیس کے جنوبی پایۂ تخت میں تھا ورنہ خروج کی جرات نہ کی جاتی۔ فرعون اور اس کی فوج کے تعاقب سے بچنے کے لیے دہانے سے راست سینا کو جلد سے جلد جانا چائیے تھا یا کھلے میدان میں آکر فرعونی فوج کا آسان شکار بننا قرین مصلحت تھا؟ وغیرہ وغیرہ
خدا سے دعا ہے کہ ہم سب کو وقفنا لما تحب و ترضاہ۔ الحق یعلو ولا یعلی علیہ۔
فقیر محمد حمید اللہ
ماخذ: ماہنامہ الحق مئی 1983ء