ڈاکٹر محمد حمید اللہ بنام مظہر ممتاز قریشی، 3 فروری 1993ء
3 فروری 1993ء
مخدوم و محترم زاد مجدکم
سلام مسنون۔ عید مبارک
آج صبح آپ کا خط اور عید کارڈ(1) دونوں پہنچے۔ ممنون ہوا۔ التجا ہے کہ آئندہ عید کارڈوں کو ختم فرما دیں۔ یہ محض اسراف اور فرنگیوں کی تقلید کے معنی رکھتے ہیں۔ ایک خط اس سے پہلے بھیج چکا ہوں۔ ان شاء اللہ ملا ہو گا۔
اسلام آباد، لاہور اور کراچی کا سرسری(2) پروگرام تو آیا ہے۔ ہر چیز حکومت کے ہاتھ میں ہے۔ اور
غالباً قیام کے سارے انتظام وہی کرے گی (کراچی میں، سابق میں محیی الدین عبد القادر صاحب (3) کے ہاں رہا کرتا تھا۔ وہ آج کل حج و عمرہ کے لیے گئے ہوئے ہیں)۔
کراچی میں وقت ملا تو رشتہ داروں سے مل سکوں گا۔ باقی ہر چیز اللہ کے ہاتھ میں ہے، مجھے تا حال کوئی تفصیل نہیں معلوم۔
مکان میں کورنشات۔
نیاز مند خادم
محمد حمید اللہ
_______________
حواشی:
(1) میں نے عید کے موقع پر ڈاکٹر صاحب کو بھی عید کارڈ بھجوایا تھا جس کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ محض اسراف ہے اور فرنگیوں کی تقلید ہے اس لیے ان کو آئندہ عید کارڈ نہ ـھجواؤں۔ یہ میری عادت ہے کہ دوست اور جاننے والوں کو ہمیشہ عید کارڈ بھوجاتا ہوں۔ کوئی پچاس عید کارڈ ہر سال ضرور بھجواتا ہوں۔ یہ یقینا اسراف ہے مگر میں اس کو دوستی بڑھانے کا ذریعہ سمجھتا ہوں۔
(2) ڈاکٹر صاحب نے پاکستان آنے کے پروگرام کے بارے لکھا ہے کہ سرکاری طور پر سارا انتظام ہو گا۔
(3) ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے کہ موجودہ سرکاری انتظام سے پہلے وہ اپنے رشتے دار جناب محی الدین عبد القادر صاحب کے پاس جب کبھی پیرس سے آتے ان کے گھر قیام کرتے جو پی آئی بی کالونی کراچی میں ہے۔ میں بھی وہاں ڈاکٹر صاحب سے مل چکا ہوں۔ جناب محی الدین عبد القادر صاحب اور ان کے بھائی جناب رکن الدین صاحب اسکول کی تعلیم کے زمانے میں میرے ساتھ پڑھا کرتے تھے جو نام پلی کے محلے (حیدر آباد دکن) میں واقع تھا۔