ڈاکٹر محمد حمید اللہ بنام مظہر ممتاز قریشی، 28 ربیع الاول 1411ھ
28 ربیع الاول 1411ھ
مخدوم محترم زاد مجدکم
سلام مسنون۔ آج آپ کا 15 اپریل کا خط ملا۔ شکر گزار بھی ہوں اور ڈاک کی سست خرامی پر حیرت زدہ بھی۔ الحمد للہ معین الحق صاحب(1) مرحوم کے متعلق بھیجا ہوا مضمون پہنچ گیا۔
فرمائشیں آسان ہوتی ہیں، تعمیل بر وقت آسان نہیں۔ آج کل یہاں اتنی مصروفیت ہے کہ مزید مضامین کے لیے معذرت چاہتا ہوں۔
احمد خان صاحب(2) اور حکیم محمد سعید صاحب نے بھی آسان فرمائش کی کہ میرے ہر زبان میں کتنے مضمون ہیں اور ان کے کتنے صفحے ہیں۔ آپ ہی بتائیے کہ کیا بتاشں۔
تراجم قرآن(3) کا کھویا ہوا بستہ نہیں ملا۔ جرمن ترجمہ قرآن آگے بڑھنے کے لیے وقت نہیں ملتا۔
مکان میں سب کو سلام۔
خادم
محمد حمید اللہ
____________
حواشی:
(1) ڈاکٹر صاحب نے میرے ہم زلف کے انتقال پر ایک مختصر سا مضمون لکھ کر بھجوایا تھا اس کی اصلاح میں نے دی تھی لیکن یہ مضمون ڈاک میں ذرا دیر سے آیا تھا مگر مل گیا تھا
(2) جناب احمد خان (صدر مجلس بہادر یار جنگ اکیدمی) اور جناب حکیم محمد سعید صاحب نے مجھ سے کہلوایا تھا کہ یہ معلوم کروں کہ ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کے مختلف زبانوں میں مضامین کی تعداد کتنی ہے اور ہر مضمون کتنے صفحات پر لکھا ہوا ہے جس پر یہ جملہ خوش خلقی کا عمدہ نمونہ ہے آپ ہی بتلائیے کہ کیا کروں۔
(3) ڈاکٹر صاحب سورۂ فاتحہ کے مختلف زبانوں میں تراج مجمع کر رہے تھے اور ان سب کو بستے (Bag) میں رکھے ہوئے تھے۔ اور بستہ کہیں غائب ہو گیا۔ ڈاکٹر صاحب کو یاد نہیں رہا کہ کس جگہ کھو گیا۔ اس کی اطلاع دی ہے کہ کھویا ہوا بستہ نہیں ملا۔