ڈاکٹر محمد حمید اللہ بنام مظہر ممتاز قریشی، 3 شعبان 1413ھ
3 شعبان 1413ھ
مخدوم و حترم زاد مجدکم
سلام مسنون ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔ آج 18 جنوری کا خط ملا۔ ممنون ہوا۔ میرا ایک خط راستے میں ہو گا۔ جنگ کے تراشے نہیں ملے۔ ختم نبوت کے ہاں سے متعلقہ نمبر نہ آیا۔ آپ کا بھیجا ہوا نسخہ(1) ملا تھا جو کافی ہے۔ احسان اوغلو صاحب(2) کی کتاب(3) عرصہ سے موجود ہے اور مفید چیز ہے۔ وہ اب اس کا نیا اڈیشن نکالنا چاہتے ہیں۔ ان شاء اللہ وہ بھی اچھی چیز ہو گی۔ اسلام آباد میں مسجد فیصل میں ایک ادارہ تحقیقات اسلامیہ ہے وہ قرآن کے ترجمے مختلف زبانوں(4) میں چھاپنے لگے ہیں۔ ایک دو میرے پاس بھی آئے ہیں۔
ڈاکثر رضی الدین صدیقی صاحب کا قصہ یہ ہے کہ حیدر آباد سے میر ے بھتیجے نے ایک مضمون کی فوٹو کاپیاں بھیجی ہیں جو شمالی ہندوستان کے کسی رسالے(5) میں چھپا ہے۔ اس میں بعض غلط سلط باتیں مولانا مناظر احسن گیلانی مرحوم کے متعلق لکھی ہیں کہ وہ حیدر آباد میں فیکلٹی آف حدیث کے صدر تھے وغیرہ۔ جامعہ عثمانیہ میں ایسی کوئی چیز نہ تھی۔ جہاں تک مجھے یاد ہے وہاں شعبہ فنون اور شعبہ سائنس کے سارے طلبہ کے لیے بھی دینی تعلیم لازم کی گئی تھی۔ مسلمانوں کے لیے اسلامیات کی تعلیم اور غیر مسلموں کے لیے اخلاقیات، شروع میں مناظر احسن صاحب وہاں اسلامیات کی تعلیم دیتے رہے۔ پھر ان کا شعبہ دینیات میں تبادلہ ہوا جہاں مولانا عبد القدیر صدیقی صدر شعبہ تھے اور مولانا مناظر احسن شاید فقہ کی تعلیم دیتے تھے۔ پھر عبد القدیر صاحب کو پنشن ہوئی تو مولانا مناظر احسن صاحب پورے شعبہ دینیات کے صدر بنے اور آخر تک وہیں رہے۔ اگر رضی الدین صاحب کچھ اس طرح کی یاداشت لکھ دیں تو غلط بیانیوں کی تصحیح ہو جائے گی۔ رضی الدین صاحب کو اوپر کی سطروں کی نقل بھیج سکتے ہیں۔ وہ میرے با صحبت دوست ہیں۔
حضرت سلمان فارسی کا کامل سورہ فاتحہ کا ترجمہ موجود نہیں۔
کتاب نہایتہ حاشیہ الہدایت(6) طبع ہند 1915، صفحہ 86 نوٹ نمبر 1 میں اس ترجمے کا ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ کی اجازت سے کیا گیا اور نمونہ کے طور پر بسم اللہ الرحمن الرحیم کا ترجمہ دیا ہے۔ بنام یزدان بخشایندہ بخشائشگر کامل سورے کا ترجمہ نہیں دیا ہے۔ میں نے خاص اس پر کوئی مضمون نہیں لکھا ہے۔ بلکہ قرآن مجید کے تراجم پر گفتگو کرتے ہوئے فارسی کے ذکر میں مذکورہ بالا باتیں دہرائی ہیں۔ اس میں زیاہ نہیں۔ خود مجھے اس کی تلاش ہے۔
میں عرض کر چکا ہوں کہ حضرت عیسی پر میں نے کوئی مضمون(7) نہیں پڑھا بلکہ زبانی لیکچر دیا۔ ریونیون سے واپسی پر پاریس میں بھی وہی ہوا۔ مجھے لکھ کر پڑھنے کی عادت نہیں۔
نیاز مند
محمد حمید اللہ
_____________________
حواشی:
(1) ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے کہ ختم نبوت جو کہ میں نے علیحدہ بھجوایا تھا ان کو مل گیا لیکن ادارے کیطرف سے کوئی رسالہ نہیں بھجوایا گیا۔ حالاں کہ ادارہ کو ضرور بھجوانا چائیے تھا ڈاک خرچ کی پروا کئے بغیر کیوں کہ ایک عالم دین کی طرف سے تردیدی بیان شائع کیا گیا تھا۔
(2) IRCICA یعنی Research Center For Islamic History, Art and Culture کے سابق ڈائریکٹر جرنل ڈاکٹر اکمل الدین احسان اوغلو جو آج کل The Organization of the Islamic Conference یا مختصراً O.I.C کے سیکرٹری جرنل ہیں۔ ڈاکٹر اوغلو بھی ڈاکٹر محمد حمید اللہ صاحب مرحوم کے ترک شاگردوں میں شامل ہیں۔
(3) ڈاکٹر صاحب نے IRCICA کے ڈائریکٹر جرنل اور ایڈیٹر ڈاکٹر اکمل الدین احسان اوغلو صاحب کی کتاب World Bibliography of Translations of the Holy Quran کا ذکر پہلے خط میں بھی کیا تھا کہ وہ مخطوطات بھی چھاپ رہے ہیں۔ آج کے خط میں ذرا وضاحت کی ہے کہ اس کا وہ نیا ایڈیشن چھاپنا چاہتے ہیں۔ جناب اوغلو صاحب نے مجھے بھی خط لکھا تھا کہ وہ نیا ایڈیشن چھاپنے کی تیاری کر رہے ہیں کچھ نئے تراجم کے ساتھ۔ (بعد میں اوغلو صاحب نے کام کی نوعیت کو سمجھتے ہوئے نیا ایڈیشن شائع نہیں کیا بلکہ وہ مخطوطات کی طرف توجہ دینے لگے اور قرآنی تراجم کے مخطوطات جہاں سے مل سکے ان کو جمع کر کے سنہ 1000ء میں شائع کر دی۔ ایک نسخہ مجھے بھی بھجوایا)۔
(4) ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے کہ ادارہ تحقیقات اسلامی، اسلام آیاد نے قرآن مجید کے تراجم بھی رسالے میں شائع کر دیئے ہیں جس کے دو نسخے پیرس کو بھی بھجوائے گئے تھے۔ میرا خیال ہے کہ تراجم جناب احمد خان صاحب نے جمع کر کے شائع کروائے جو بعد میں کتابی شکل میں بھی شائع ہوئی تھی۔
(5) ڈاکٹر صاحب نے اپنے استاد گرامی مولانا مناظر احسن گیلانی صاحب کے بارے میں ذکر کیا ہے ان کے بارے میں یہ لکھا گیا تھا کہ وہ جامعہ عثمانیہ میںفیکلٹی آف حدیث کے صدر تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے شعبہ فنون کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا تھا کہ جامعہ میں شعبہ دینیات قائم کیا گیا تھا جس کے صدر مولانا گیلانی صاحب تھے۔ ان کے ریٹائر ہونے کے بعد مولانا عبد القدیر صدیقی صاحب اس شعبہ دینیات کے صدر رہے۔ مولانا مناظر احسن گیلانی صاحب پہلے اسلامیات کی تعلیم دیتے تھے پھر فقہ اسلامی کی تعلیم دینے لگے۔ اور حاص بات جامعہ عثمانیہ کی یہ تھی کہ دینیات کا مضمون مسلم طالب علموں کے لیے لازمی تھا صرف ہندوؤں کو ا’حلاقیات پڑھائی جاتی تھی۔
(6)میں نے ڈاکٹر صاحب سے معلوم کیا تھا کہ حضرت سلمان فارسی نے جو سورہ فاتحہ کا رجمہ کیا تھا فارسی میں، جس کی اجازت حضور صلی للہ علیہ وسلم نے نماز میں بھی پڑھنے کی دی تھی جب تک عربی میں مکمل طور پر یاد نہ کر لیا جائے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے کہ انھوں نے سورہ فاتحہ کا ذکر کرتے صرف بسم اللہ الرحمن الرحیم کا ترجمہ شائع کیا تھا کیوں کہ سورہ فاتحہ کا مکمل فارسی ترجمہ ان کو بھی نہ مل سکا تھا جس کی تلاش وہ جاری رکھے ہوئے تھے۔ کیوں کہ کتاب نہایۃ حاشیہ الہدایہ (طبع ہند، 1915، صفحہ 86 نوٹ نمبر 1) میں صرف بسم اللہ کا ہی ترجمہ درجہ تھا مکمل سورہ فاتحہ کا نہیں تھا۔ ترجمہ یہ تھا؛ بنام یزدان بخشایندہ بخشائشگر/ معلوم نہیں بعد میں بھی کسی نے سورہ فاتحہ کا مکمل ترجمہ ڈھونڈ نکالا کہ نہیں۔
(7) میں نے ڈاکٹر صاحب کو اس تقریر کو بھجوانے کے لیے لکھا تھا جو کہ انھوں نے ریونیون میں کی تھی۔ اس کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ تقریر لکھ کر نہیں پڑھتے بلکہ زبانی ہی تقریر کرتے ہیں اور ان کا کوئی تحریری مضمون نہیں ہے۔ بلکہ یہ وضاحت کر دی ہے کہ مجھے لکھ کر پڑھنے کی عادت نہیں ہے۔ اس کا عملی ثبوت ڈاکٹر صاحب کی وہ 12 تقاریر ہیں جو کہ ڈاکٹر صاحب نے بہاولپور یونیورسٹی میں خطبات بہاولپور کے عنوان سے دیئے تھے اور اب کتابی شکل میں موجود ہے۔