ڈاکٹر محمد حمید اللہ بنام ڈاکٹر احمد خان، 25 رجب 1389ھ
25 رجب 1389ھ
مکرمی دام لطفکم
سلام مسنون ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔ آپ نے زحمت فرمائی۔ دلی شکریہ! میں خط یا کارڈ مندرجات کی مقدار کے مطابق اختیار کرتا ہوں۔ یہاں ایروگرام کا رواج نہیں ہے۔ مجھے مترجم کے نام کی ضرورت نہ تھی۔ میں صرف یہ چاہتا تھا، اور اب بھی چاہتا ہوں کہ حق بہ حقدار ہو۔ مضمون کا عربی ترجمہ میں نے نہیں کیا، اس لیے وہ میری طرف منسوب نہ ہو۔ یہ غلط نامہ نہیں ہے بلکہ تکملہ ہے۔ اگر مترجم اپنا نام اس رسالے میں دینا نہیں چاہتے ہیں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ حمید اللہ کے اردو مضمون کا عربی ترجمہ دفتر نے جمع کرایا۔
سند البزاز میں نے کبھی نہ دیکھی تھی۔ رباط (مراکش) سے ایک دوست نے لکھا ہے کہ وہ باب وار نہیں، راوی وار (مسند ابن حنبل کی نہج کی) ہے۔ مکمل نسخہ دنیا میں کہیں نہیں ہے، مصر کو بھی خط کھا ہے اور استانبول کو بھی کہ اس کے ماخذ کی اطلاع مجھے تازہ ملی ہے۔ توقع کم ہے کہ مصر اور مراکش والے احباب پورے نسخے کو کھنگالنے کی زحمت گوارا کریں۔ استانبول مجھے آئندہ مارچ میں جانا ہے۔ زندگی ہے تو وہاں کا کام خود ہی کر لوں گا، ان شاء اللہ۔ میرا فرانسیسی مضمون اس دستاویز پر اب چھپ رہا ہے۔ ابتدائی صفحوں کے پروف تو دیکھ بھی چکا ہوں۔ اس میں صرف ابن حزم اور فرنگی معترضین کی جرح و قدح کا میں نے جائزہ لیا ہے۔ چھپ جائے تو ان شاء اللہ ایک نسخہ خدمت میں گزرانوں گا۔ زمانہ جاہلیت اور ابتدائے اسلام کی عدل گستری کا ذکر میری کتاب عہد نبوی کا نظام حکمرانی کے ایک باب میں میں نے بھی کیا ہے۔ ایمیل تیان کی فرانسیسی کتاب دو جلدوں میں اسی موضوع پر ہے(1)۔ کچھ اور بھی مضمون چھپے ہیں، آپ واقف ہوں گے۔
مسند البزاز کا مطبوعہ یا ندوۃ العلما کا نسخہ، دونوں میرے لیے نئی چیز ہیں(2)۔ مطبوعہ نسخہ ممکن ہے حیدر آباد دکن میں ہو وہاں بھائی صاحب کو لکھوں گا۔ وہ ضعیف اور نابینا سے ہو چکے ہیں مگر کہوں گا کہ کسی دوست سے کام کرا دیں۔ ندوۃ العلما سے مایوسی اور قطعی نا امیدی ہے۔ وہاں لکھنا بیکار ہی سمجھتا ہوں۔
کتاب المصاحف کے متعلق آپ کا گمان میرے علم سے مختلف ہے(3)۔ جامعہ میونک (جرمنی) میں تین پشت سے ادارہ قرآن قائم تھا۔ ساری دنیا سے قرآنی مخطوطے فوٹو لے کر جمع کیے گئے تھے (کوئی بیالیس ہزار) ان کا ایک ایک حرف پڑھ کر کاتبوں کی غلطیاں جمع کی گئی تھیں۔ دوسری جنگ عظیم میں امریکن بمباری میں ادارہ مع مدیر آنجہانی ہو گئے۔ مگر جیفری نے بھی اور آخری مدیر پرتسل Pertzl نے بھی یہ یقین دلایا کہ قرآن میں اختلاف روایت نہیں ملا۔ کاتب کی غلطیاں ہر جگہ ملتی ہیں لیکن کوئی غلطی ایسی نہیں جو متعدد مخطوطوں میں ملے لہذا اسے اختلاف روایت قرار نہیں دیا جا سکتا۔
جیفری نے ابن ابی داؤد کے دیباچے ہی میں یہاں تک لکھا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ مسلمانوں نے اتنے اختلاف کا مواد باقی ہی رہنے کیسے دیا۔ چائیے تو یہ تھا کہ وہ ایسا مواد تلف کر دیتے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانون نے کبھی مواد تلف نہیں کیا۔
باقی کتاب المصاحب کے اندر کا مواد، کبھی تو وہ تفسیر پر مبنی ہے اور کبھی کسی قدر تبیان پر۔ یہ آخر الذکر زیادہ تر مجھے حضرت علی کی طرف منسوب ملا۔ اس کی مزید تحقیق پر پتہ چلا کہ بعض برادران شیعہ کے مکان میں یہ نسخہ ملا جسے عباسی حکومت نے تلف بھی کرایا۔ آپ کو معلوم ہو گا قرآن کے پارہ ہائے 31 تا 40 بھی رام پور میں ملے تھے۔ ایک اور موقع سے بھی آپ واقف ہوں گے۔ گارسیں دتاسی نے سورۃ النورین کو شائع کیا تھا اور لکھا تھا کہ اسے یہ روسی نصرانی شدہ شیعی الولادت مرزا کاظم بیگ سے ملا تھا اور خود کاظم بیگ نے بھی اسے شائع کرتے ہوئے لکھا ہے کا اسے یہ سورہ گارسیں دتاسی سے ملا ہے(4) (کسے سچ سمجھیں)۔
آپ خود ان اشارات کی روشنی میں کتاب المصاحب کو مکرر غور سے دیکھیں تو ان شاء اللہ مسئلہ زیادہ سلجھ جائے گا۔ صحابہ کرام میں سے متعدد نے حضور اکرم سے آیات کے معنی پوچھ کر اپنے نسخوں میں بین السطور اضافے کیے تھے۔ بعد میں وہ بین السطور کی جگہ متن میں شامل ہو گئے۔ اختلافات کا وجود عملاً ہے ہی نہیں۔ قرا اور حفاظ آج تک جو سند دیتے ہیں ان سے بھی معلوم ہوتا ہے حضرت ابی، حضرت زید، حصرت علی وغیرہ کی قراتوں میں کوئی فرق نہیں، جیسا کہ میری سند میں مدینہ منورہ کے شیخ القرآن شیخ حسن الشاعر نے لکھا ہے۔
مخلص
محمد حمید اللہ۔
_______
حواشی:
(1) ایميل تيان کی کتاب کا نام Institution de Droit Public Musulman جو لبنان سے 1956ء میں شائع ہوئی۔
(2) مکتوب الیہ نے یہ معلومات ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کو اپنے خط میڑ روانہ کی تھیں۔
(3)کتاب المصاحب از ابن ابی داؤد، آرتھر جیفری نے 1355ھ میں شائع کی تھی۔
(4) تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں گارسا دتاسی، اردو خدمات، علمی کارنامے، از ثریا حسین، مطبوعہ، دہلی 1984ء