ڈاکٹر محمد حمید اللہ بنام مظہر ممتاز قریشی، 8 جمادی الآخر 1411ھ
8 جمادی الآخر 1411ھ
مخدوم و محترم زاد مجدکم
سلام مسنون ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔ دو تین دن ہوئے کرم نامہ ملا جس میں جنوبی ہند(1) کی زبانوں میں تراجم قرآن مجید کے متعلق آپ کی مفید کتاب کا ابتدائی حصہ بھی شامل تھا۔ دلی شکریہ عرض ہے اس میں طباعت کی متعدد غلطیان تو ہیں لیکن سب سے زیادہ تکلیف دہ چیز میرے پیش لفظ میں میرا پتہ بڑھا دینا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ میں بے وطن اور پناہ گزین ہوں۔ یہ پتہ میرے دشمن کے ہاتھ میں پڑے تو میری جان اور مال دونوں کو خطرہ ہے۔ اللہ کی مرضی، اللہ ہی مالک ہے۔
میری سوانح عمری(2) سے مجھے دلچسپی نہیں، بلکہ چڑھ ہے۔ اس کی تالیف میں میری مدد کا کوئی سوال نہیں۔
فی الحال میرے سفر پاکستان کا کوئی سوال نہیں۔ پچاسی سال سے زیادہ کی عمر ہو چکی ہے۔ سفر اب شاق ہونے لگے ہیں۔ اہم کام گھر میں بیٹھ کر بھی مشکل سے کر سکتا ہوں۔ ترجمان القرآن(3) کے اوراق آپ نے وفور کرم سے بھیجے تھے۔ ان کا جواب شروع کیا اور آج تک پورا نہ ہو سکا۔ اللہ کی مرضی۔
خود الدراسات الاسلامیہ(4) میں اب میری ایک تردید چھپی ہے۔ تابدیگراں چہ رسد۔
میرے مطبوعہ مضامین(5) کی تصویریں بھی تا حال مکمل نہ ہو سکیں۔ الحمد اللہ علی کل حال۔ نواسا(6) مبارک۔ سب کی خدمت میں سلام۔
خادم
محمد حمید اللہ
_________________
حواشی:
(1) میں نے دسمبر 1990ء میں چھپی ہوئی کتاب قرآن مجید کے تراجم جنوبی ہند کی زبانوں میں کے چند اوراق بھجوائے تھے جس کا ڈاکٹر صاحب نے دلی شکریہ ادا کیا ہے۔ البتہ پیش لفظ میں ڈاکٹر صاحب کا پتہ بھی نیچے لکھ دیا تھا، جس کے بارے مین خدشہ ظاہر کیا کہ اس پتے سے ان کی جان و مال کو خطرہ ہے۔ حالانکہ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت اتنی مشہور تھی کہ صرف نام کے ساتھ پیرس لکھا جاتا تو خط مل جاتا تھا۔ اور پھر دنیا بھر کے لوگ بلکہ فرانس کے لوگ ڈاکٹر صاحب کے پتے سے واقف تھے۔ کئی غیر مسلم ڈاکٹر صاحب کے گھر پر آ کر اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کرتے تھے اور کئی مسلمان بھی ہو جاتے تھے۔
(2) میں نے ڈاکٹر صاحب کو لکھا تھا کہ میں ان کی سوانح عمری چھاپنا چاہتا ہوں اس کے ہیے میرے دوست خورشید جو پیرس میں رہتے ہیں وہ آ جایا کریں گے اور ڈاکٹر صاحب ان کو لکھواتے رہیں مگر ڈاکٹر صاحب نے انکار کرتے ہوئے لکھا کہ ان کو اس سے چڑھ ہے۔ چڑھ کا لفظ ہم حیدر آبادی لوگ زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ اس کے بعد میں نے دوبارہ سوانح کا ذکر ہی نہیں کیا۔
(3) میں نے رسالہ ترجمان القرآن میں چھپے ہوئے مضمون کی فوٹو کاپیاں بھجوائی تھیں جو میں نے ڈاکٹر صاحب پر لکھا تھا جس کا ڈاکٹر صاحب نے شکریہ کے بجائے رفور کرم کا لفظ استعمال کیا ہے جو میرے لیے خوشی کا باعث ہوا جس سے ڈاکٹر صاحب کے خلوص اور مہربانی کا ثبوت ملتا ہے۔ ساتھ یہ بھی لکھا کہ ایڈیٹر صاحب کو جواب دینے کی کوشش کی تھی لیکن لکھ نہ سکے۔
(4) ڈاکٹر صاحب کی رسالہ الدراسات الاسلامیہ میں تردید شائی ہوئی تھی، میںے نے اس کے اوراق بھجوائے تھے کیوں کہ اسلام آباد کے عربی رسالے میں پہلی دفعہ وہ مضمون چھپا تھا جس سے اختلاف رائے کا سلسلہ شروع ہوا تھا کہ حضور صلی للہ علیہ والہ وسلم کی نو ازواج مطہرات میں سے صرف چند ازواج کے ساتھ آپ کے تعلقات رہے تھے۔
(5) میرے کہنے پر اور حکیم محمد سعید صاحب کی خواہش کے مطابق ڈاکٹر صاحب اپنے مضامین کی فوٹو کاپیاں برابر زیرکس کر رہے تھے اپنے شاگردوں کے ذریعہ ان کو نکلوائے جانے کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ کام جاری ہے۔ کیوں کہ مضامین کے ہزاروں صفحات تھے۔
(6) میں نے میری بیٹی افروز الیاس کے لڑکا پیدا ہونے کی اطلاع دی تھی کہ شرف آباد کلینک میں 20 نومبر 1990ء کو ان کے ایک بچہ پیدا ہوا تھا۔ اسی کی پیدائش پر مبارک لکھا ہے۔