ڈاکٹر محمد حمید اللہ بنام مظہر ممتاز قریشی، 14 رمضان المبارک 1411ھ
14 رمضان المبارک 1411ھ
مخدوم و محترم زاد مجدکم
سلام مسنون ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
دو دن ہوئے کرم نامہ ملا تھا۔ جزاکم اللہ خیرا۔ فوراً عربی مضمون(1) کا نسخہ ہوائی ڈاک سے آپ کو بھیج دیا۔ آج کل کاموں کی اتنی کثرت ہے کہ جواب دینا بھی آسان نہیں رہا ہے۔ یہاں ہر روز مقامی(2) طلبہ پڑھنے کے لیے آتے ہیں۔ چار دانگ عالم سے ان گنت خط آتے ہیں، فتوی پوچھنے کے لیے بھی اور دیگر وقت لینے والے کاموں کے لیے بھی۔ پچاسی سال سے عمر تجاوز کر چکی ہے واللہ المستعان۔
ترجمان القرآن کا مضمون لکھ رہا ہوں۔ ان شاء اللہ جیسے ہی مکمل ہو گا بھیج دوں گا۔ میں وقت واحد(3) میں متعدد کاموں میں مشغول رہتا ہوں، صرف کسی ایک سے نہیں۔ جرمن ترجمہ(4) بھی آگے نہیں بڑھ سکا۔ وقت کا سوال ہے۔
سب کو سلام۔
خادم
محمد حمید اللہ
_____________________
حواشی:
(1) ڈاکٹر صاحب نے رسالہ الدراسات اسلامیہ اسلام آباد میں ڈاکٹر صاحب کا تردیدی مضمون چھپنے کے بعد اس کی نقل مجھے بھجوا دی تھی ( جو مجھے بعد میں مل گیا تھا)۔
(2) ڈاکٹر صاحب نے پہلی دفعہ طالب علموں کو پڑھانے کا ذکر کیا ہے۔ غالباً پیرس میں مقیم وہ طالب علم ہوں گے جو دوسرے اسلامی ممالک سے آ کر پیرس میں پڑھ رہے تھے۔ اور ڈاکٹر صاحب سے مزید علم حاصل کرنے کے لیے آ جاتے ہوں گے۔ (ڈاکٹر صاحب نے ان طالب علموں کی وضاحت نہیں کی ہے)۔
(3) آج کے خط میں ڈاکٹر صاحب نے اپنے روزانہ کے پروگرام کا ذکر کیا ہے اور شیڈول کے بارے میں لکھا ہے۔ کئی کام یکرے بعد دیگرے کرتا ہوں۔ غرض ان کی زندگی کا ہر لمحہ فرائض مذہبی میں گزرتا ہے اس لیے ان کے پاس نہ ریڈیو تھا نہ ٹیلی ویژن نہ ٹیلی فون۔ ان کا خیال تھا کہ ان کے پاس سننے اور دیکھنے کا وقت نہیں ہے۔
(4) ڈاکٹر صاحب نے میرے معلوم کرنے پر دوبارہ لکھا ہے کہ ان کا جرمن زبان میں قرآن کا ترجمہ آگے نہ بڑھ سکا۔ کیوں کہ ڈاکٹر صاحب کو اتنے زیادا کام کرنے پڑتے ہیں تھے کہ ہر کام ضروری ہوتا تھا وہ کسی کو مایوس کرنا نہیں چاہتے۔ انہی کاموں کی تکمیل میں لگے رہتے تھے اس لیے ترجمہ ترجمہ کرنے کا وقت ہی نہیں ملا۔ (اگر وقت مل جاتا تو دو زبانوں میں قرآن کا ترجمہ کرنے والے پہلے مسلمان مترجم کہلاتے)۔