ڈاکٹر محمد حمید اللہ بنام مظہر ممتاز قریشی، 14 دسمبر 1991ء
1412ھ
14 دسمبر 1991ء
مخدم و محترم زادمجدکم
سلام مسنون۔ خیر و عافیت کا طالب۔ آپ کا کرم نامہ آیا جس سے اطمینان ہوا کہ آپ کا طویل سکوت(1) کسی خفگی کی وجہ سے نہ تھا۔ ورنہ میں ادب سے معافی مانگتا ہوں۔ آج کل حضرت ابراہیم علیہ السلام(2) کے بارے میں کام میں مصروف ہوں۔ میرا باب بھیج چکا ہوں دیگر رفقاء نے ابھی کام پورا نہیں کیا۔ اسے شاید ابھی کئی مہینے لگیں۔
شاہ ولی اللہ کی کتاب کے لیے ابھی وقت نکال نہ سکا۔ مکان میں آداب۔
نیاز مند
محمد حمید اللہ
ہمدرد فاؤنڈیشن کی طرف دینوری کی کتاب النبات(3) کے متعلق سکوت ہی سکوت ہے۔
_______________________
حواشی:
(1) میں نے کوئی دو ہفتے تک اپنی مصروفیت کی وجہ سے ڈاکثر صاحب کو خط نہیں لکھا تھا۔ اس طویل خاموشی پر ڈاکٹر صاحب کچھ پریشان ہو گئے اور لکھا کہ طویل سکوت کسی خفگی کی وجہ سے تو نہ تھا۔ حالاں کہ ڈاکٹر صاحب سے خفا رہنا ممکن ہی نہیں ہے اور پھر ڈاکٹر صاحب کا یہ لکھنا کہ اگر میں خفا رہتا تو وہ ادب سے معافی مانگتے۔ یہ بھی ڈاکٹر صاحب کی انتہائی خوش اخلاقی کا ّبوت ہے کہ وہ معمولی شاگرد سے معافی مانگتے۔ میرا خیال ہے کہ ایسے استاد آج کل ملنا مشکل ہیں جو ؤاگرد سے معافی مانگنے کے لیے تیار ہوں حالاں کہ قصور بھی ہو تو معافی مانگنا ضروری نہیں سمجھتے جب کہ میری طویل خاموشی پر ڈاکٹر صاحب اس طرح کا اظہار کر رہے تھے۔ مجھے تو ڈاکٹر صاحب کی مثال مشکل سے ہی ملتی ہے۔
(2) ڈاکٹر صاحب ان دنوں تین کتابوں کی تالیف میں مصروف تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام، حصرت عیسی علیہ السلام اور شاہ ولی صاحب کی کتاب حجۃ اللہ البالغہ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر مواد جمع کرنا آسان نہیں ہے اور پھر تین فرقوں کی معلومات پر وہ مقالہ لکھا جانا ہے۔ اس سلسلے میں لکھا ہے وہ اپنا باب مکمل کر کے بھجوا چکے ہیں البتہ حجۃ اللہ البالغہ کا کام ابھی ادھورا ہے۔ اس کے لیے وقت نہیں مل رہا ہے۔
(3) ڈاکٹر صاحب نے کتاب النبات کا ذکر کیا ہے۔ اس کی دوسری جلد کو ڈاکٹر صاحب نے ایڈٹ کر کے ہمدرد کو بھجوایا تھا اور ہمدرد نے شائع کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا کہ جلد سے جلد شائع کر دیں گے۔ غالبا ہمدرد والوں نے دوسری مصروفیات کی وجہ سے اس کتاب پر توجہ نہیں دی۔ اب ڈاکٹر صاحب باربار ہمدرد کو خط لکھ کر توجہ دلا رہے ہیں اور یہی لکھتے ہیں کہ سکوت ہی سکوت ہے۔ میں بھی حکیم نعیم الدین زبیری صاحب کو ڈاکثر صاحب کی تشویش سے مطلع کرتا رہتا تھا۔