اسلامی جہاد
اسلامی جہاد
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروؤں کو ہجرت سے قبل مکہ میں کیا کچھ اذیت نہ دی گئی اور جیسے جیسے یہ ہجرت کرتے جاتے تھے ان کی جائیداد منقولہ کس طرح قرق نہ ہوتی گئی۔ جب خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت فرماتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو کثیر رقمیں امانت تھیں ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتقاماً ہی ساتھ لے کر مد ینہ فرار ہو سکتے تھے مگر آپ نے جو کچھ کیا اس سے خود بیسویں صدی کے مہذب انسان کو چاہے گورا ہو یا کالا ) شرمانا پڑتا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم بدر میں تشریف فرما ہیں۔ ابوجہل کی سرداری میں تعداد میں تگنا، ساز و سامان میں دس گنا دشمن کا لشکر چڑھائی کرتا ہے۔ مورخ بلاذری نے انساب الاشراف‘‘ میں ایک کم معروف مگر اہم تفصیل درج کیا ہے اور لکھا ہے
حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے شکر کو کہلا بھیجا کہ مکہ واپس چلے جائیں کیونکہ آپ صلی الله علیہ وسلم ان سے لڑنا نہیں چاہتے۔ جب ادھر سے انکار ہوا، تو مجبوراً لڑائی کرنی ہی پڑی۔ تھگنے دشمن کو شکست فاش دینے کے بعد جب ستر اسی آدمی گرفتار ہوئے تو ان سب کو تلوار کے گھاٹ اتارنے میں کوئی امر مانع نہ تھا اور شاید مسلمان حق بجانب ہوتے مگر مقصد انتقام تھانہ درندگی و خونخواری۔ اگر ان سب کو یونہی چھوڑ دیا جاتا تو شاید وہ بھی افراد کی فطرتوں میں تفاوت کے باعث مقصد کو فوت کر دیتا اس لیے قیدیوں سے برتاو بھی مختلف رہا۔ شریفوں کو محض اس وعدے پر چھوڑ دیا کہ آئندہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائیں گے۔ اسلحہ فروشمالداروں سے فدیہ میں ہتھیار مانگے گئے۔ سرمایہ داروں سے رقم مانگی گئی، پڑھے لکھوں سے کہا گیا کہ ہر شخص دس دس مسلمان بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھائے۔ صرف دو قیدیوں کو جو بدرکی چڑھائی کے اصل ذمہ دار تھے اور ہر طرح کے جبر وطنز وغیرہ کے ذریعے سے ہچکچانے والوں کو بھی ورغلا کر لائے تھے اور جن کی افتادطبع سے اس کی توقع ہی نہ تھی کہ کسی نرمی یا رعایت سے وہ کچھ بھی متاثر نہ ہوں گے صرف ایسے دو آدمیوں کو مستقبل کے خوف سے سزائے موت دی گئی۔“
بنونضیر کے یہودیوں نے بدعہدی سے گزر کر غداری کا اقدام کیا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو انہوں نے ہجرت کے بعد راضی خوشی اپنی شہری مملکت کا سردار تسلیم کیا تھا۔ لیکن جب ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے محلے میں گئے اور دھوپ سے بچنے کے لیے ایک برج کے سائے میں تشریف فرما ہوئے (ان اللہ کے بندوں کو اس کی بھی توفیق نہ ہوئی تھی کہ اپنے صدر مملکت کو کسی گھر میں بٹھا کر گفتگو کریں) تو برنج پر سے ایک بڑا پتھر گرا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوقتل کرنے کی تدبیر ہوئی۔ جب ہر طرح کی سرزدری اور جنگی مقاومت کے باوجود ان کو صرف یہ سزاملی کہ کہیں اور چلے جائیں (اور پورا مال و متاع ساتھ لے جائیں حتی کہ مسلمانوں کے دیے ہوے قرضے بھی واپس حاصل کر لیں) تو اس رعایت کا بدلہ یوں دیا کہ سارے عرب کو مدینے پر چڑھا لائے اور معرکہ خندق میں مسلمانوں کے کلیجے منہ کو آ گئے ۔“
اس انتہائی نازک اور زندگی موت کی کشمکش میں اندرون مد ینہ بنو قریظہ نے عین دم آخر غداری کی اور چاہا کہ مسلمانوں پر اندر سے ٹوٹ پڑیں (اور خندق وغیرہ کا سارا دفاعی نظام بے کا ر کر دیں) انہیں بڑی فراست سے ایک دن روکا گیا اور دوسرے يوم سبت (سنیچر) تھا جس میں یہودی اس زمانے میں جنگ نہ کرتے تھے۔ تیسرے دن عربوں کے حرام مہینے (ذیقعدتا محرم) شروع ہو رہے تھے۔ اس طرح لڑائی ختم ہوگئی۔
پروفیسرونینک نے (جو غالبا یہودی تھا) ی معقول سوال کیا ہے کہ بنو نضیر کے ساتھ رعایت کے تلخ تجربہ کے بعد کیا بنو قریظہ کی قوت بھی انہی مخالفوں کی طاقت میں اضافے کے لیے چھوڑ دی جا سکتی ہے؟ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری نرمی دکھائی اور فرمایا کہ: ۔ ’’ان یہودیوں ہی کے ایک سابق دوست اور حلیف کو پنچ ٹہرایا جائے اور وہ جو بھی فیصلہ کرے وہ نافذ کیا جائے۔اگر بنوقریضہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم بناتے تو شاید رحمة للعالینی کا مظاہرہ ہوتا۔ بہرحال اس نے بھی کوئی خاص سختی نہ کی اور صرف یہ حکم دیا کہ توریت میں حضرت موسی علیہ السلام کو مغلوب دشمن سے برتاؤ کا جو حکم دیا گیا ہے (دیکھو توریت کتاب تثنیہ فصل ۲۰،فقره۱۴۱۰) وہی عمل میں لایا جائے ۔“ گویا یہودی اپنے دشمنوں سے جو برتاؤ کرتے ہیں وہی برتاؤ ان سے کیا جائے۔
فتح مکہ شاید انسانی جہادکا کمال ہے۔ اکیس سال سے مسلسل اہل مکہ مسلمانوں کو روز افزوں بے وجہ ستاتے چلے آرہے تھے۔ اس کی داستان سے سب واقف ہیں۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے وطن کو جہاں سے جلاوطنی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مجبور کیا گیا تھا فاتحانہ واپس آئے جو برتاؤ عمل میں آیا اس کا بیسویں صدی کا”مہذب“ انسان تصور بھی نہیں کر سکتا۔ فوجی دستے شہر کی طرف بڑھے تو اس منادی کے ساتھ کہ: جو اپنے گھر میں بیٹھے رہے اسے امان ہے، جو ہتھیار ڈال نے اسے امان ہے، جو حرم کعبہ میں چلا جائے اسے امان ہے جو سردار شہر ابوسفیان کے گھر1(نوٹ 1:مشہور تابعی ثابت البنانی نے لکھا ہے کہ قبل ہجرت گلی کے لونڈے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا پیچھا کرتے اور آپ پر سنگباری کرتے اور آپ ابو سفیان کے گھر میں گھس جاتے تو وہاں آپ کو امن مل جاتا۔ فتح مکہ کا یہ اعلان اسی کی شکر گزاری میں تھا) میں چلا جائے اسے امان ہے۔“
شہر پر قبضہ مکمل ہو جانے کے بعدبستی کی ساری آبادی بلائی گئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ وہ کس برتاؤ کی توقع کرتی ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سب کے قتل عام کا حکم دے سکتے تھے۔ ساری جائیداد لوٹ کر لے لینے سارے لوگوں کو غلام بنانے کا بھی فیصلہ فرما سکتے تھے مگر آپ صلی الله علیہ وسلم نے صرف فرمایا کہ جاؤ تم پر کوئی گرفت نہیں تمہیں چھوڑ دیا جاتا ہے اس نفسیاتی لمحہ میں فورا ہی بکثرت لوگ مسلمان ہو گئے۔ ان میں سب سے پہلے ایک مشہور متمرد سردار عتاب تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد ہے چند لمحہ پہلے جب حضرت بلال نے کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذ ان دی تو عتاب نے کہا تھا:
خدا کا شکر ہے کہ میرا باپ آج زندہ نہیں ہے ورنہ وہ اس نہیق حما حضرت بلال کی اذ ان کو برداشت نہ کر سکتا۔
جب عفو عام کے اعلان پر سب سے پہلے عتاب نے آگے بڑھ کر اپنا تعارف کرایا اور اپنے اسلام کا اعلان کیا تو اس کے جواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “اچھا میں تمہیں مکہ کا گورز مقرر کرتا ہوں”
تو مفتوحہ شہر و ہیں کے ایک نومسلم کٹر دشمن کے سپرد کر دیا جا تا ہے اور چند دن بعد مدینہ واپسی ہوتی ہے تو مدینہ کا ایک واحد سپاہی تک وہاں احتیاطاً چھوڑنا غیرضروری خیال کیا جاتا ہے۔ ولمثل هذا فليعمل العاملون۔
ہفت روز ہ صدق جدیدلکھنؤ – ۲۶ جنوری ۱۹۶۸ء
باردگر یہی مضمون سے 7فروری 1969 میں بھی شائع ہوا)