ڈاکٹر محمد حمید اللہ بنام نثار احمد اسرار، 1389ھ

استنبول
4 ربیع الاول 1391ھ چہار شنبہ
مکرمی دام لطفکم
سلام مسنون، براہ کرم پروفیسر عبد القادر قرہ خان صاحب سے کسی قریبی فرصت میں مل لیجيئے۔ وہ تورک اسکی ادبیاتی کے پروفیسر ہیں۔ ان کا مکان قاضی کوئی میں ہے ٹیلی فون نمبر 369133 ہے۔ یونیورسٹی میں بہ ظاہر منگل اور چہار شنبہ دو دن آتے ہیں، کل ملے تھے۔ معلوم ہوا کہ فوٹو گرافر نے ابھی کام شروع نہیں کیا۔
میں نے کل شامل مسجد پر کوئی تحقیق کی۔ بلاذری کی فتوح البلدان میں کچھ مواد ہے۔ یہ عربی میں ہے۔ ترجمہ درج ذیل ہے:۔
(1) شرجیل بن حسنہ نے بجز طبریہ کے سارا اردن فتح کیا۔ طبریہ والوں نے ان سے صلح کی۔ اپنے آدھے سکونتی مکانوں اور آدھے گرجاؤں پر (علی انصاف منازلھم و مساکنھم)۔ (فتوح البلدان، ص 115 تا 116)۔
(2) ہیثم بن عدی نے بیان کیا ہے کہ دمشق والوں نے اپنے مکانوں اور گرجاؤں کے آدھی تعداد پر صلع کی۔ لیکن واقدی نے بیان کیا ہے کہ میں نے خالد بن ولید کے معاہدہ دمشق کو پڑھا ہے اس میں آدھے مکانوں اور گرجاؤں کا ذکر نہیں ہے۔ اگرچہ یہ واقعہ بیان کیا جاتا ہے لیکن معلوم نہیں رایوں نے یہ کس ماخذ پر بیان کیا ہے۔ (فتوح البلدان ص 123)
(3) جب حضرت معاویہ خلیفہ بنے تو انھوں نے چاہا کہ حضرت یحیی کے گرجے کو دمشق کی مسجد میں بڑھا لیں۔ عیسائیوں نے انکار کیا اس پر وہ رک گئے۔ عبد المالک نے اپنی خلافت کے زمانے میں بھی یہی چاہا اور معاوضے میں رقم پیش کی مگر عیسائیوں نے دستبرداری سے انکار کیا۔ ولید نے کہا کہ اگر تم یوں نہ دو گے تو میں گرجا ڈھا دوں گا۔ ان میں سے کسی نے کہا کہ جو کوئی گرجا کو ڈھاتا ہے تو اسے جنون یا کوئی اور بیماری ہو جاتی ہے۔ ولید کو اس پر غصہ آیا اس وقت وہ زردخز کی عبا پہنے ہوا تھا، فوراً کدال منگا کر اپنے ہاتھوں سے گرجا کی ایک دیوار توڑ دی۔ جب حضرت عمر بن عبد العزیز خلیفہ ہوئے تو عیسائیوں نے ولید کے فعل کی شکایت کی۔ انھوں نے حکم دیا کہ مسجد میں بڑھایا ہوا حصہ عیسائیوں کو واپس کر دیا جائے۔ دمشق والے (مسلمانوں) کو تکلیف ہوئی کہ جہاں اذان دے چکے اورنماز پڑھ چکے ہیں اس مسجد کو ڈھا کر گرجا کیسے بنائیں (لیکن خلیفہ کا حکم واضع تھا) ۔ ۔ ۔ ۔ اس پر وہ عیسائیوں کے پاس گئے اور کہا کہ غوطۂ دمشق کے جتنے گرجاؤں کو فتح کے وقت مسلمانوں نے لے لیا تھا وہ سب واپس کر دیئے جائیں گے بشرط کہ وہ حضرت یحیی کے گرجا سے دستبرداری دےدیں اور اس کی واپسی کا مطالبہ نہ کریں۔ وہ اس پر راضی ہو گئے۔ جب یہ اطلاع حضرت عمر بن عبد العزیز کو دی گئی تو وہ بھی خوش ہوئے اور شرائط کے نفاذ کا حکم دیا۔ (فتوح البلدان ص 125 تا 126)
(4) شرجیل بن حسنہ نے طبریہ کو صلحاً فتح کیا کئی دن کے محاصرے کے بعد، یہ اس شرط پر وہاں کے باشندوں کی جان، مال، اولاد، گرجاؤں اور مکانوں کو امن رہے گا بجز ان (مکانوں اور گرجاؤں) کے جن کے لوگ جلاوطن ہو جائیں اور ان کو چھوڑ کے چلے جائیں۔ ان کے علاوہ ایک قطعہ زمین کو بھی مستشنی کیا جہاں مسلمان مسجد بنائیں گے (فتوح البلدان ص 116)
غرض قاعدہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ صلع سے ملک فتح ہو تو صلح کی شرطوں پر عمل کیا جائے گا۔ تلوار کے زور سے فتح ہو تو فاتح کو جان و مال ہر چیز پر قبضے کا حق ہوتا ہے۔ اور جو چائے حکم دے سکتا ہے۔
اگر کوئی مزید مواد مطلوب ہو تو تحریر فرمائیں۔ میرا پتہ آپ کے پاس ہو گا۔
مخلص
محمد حمید اللہ

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.