ڈاکٹر حمید اللہ بنام سیف اللہ

ڈاکٹر حمید اللہ کا مکتوب محمد سیف اللہ کے نام

ڈاکٹر محمد حمید اللہ کا مکتوب بنام محمد سیف اللہ

بسم اللہ
یکم محرم 1407ھ
عزیزی سلمک اللہ
4-Rue De Tournon
Paris6/france
سلام خیریت حاصل و مطلوب۔ آپ کا خط اور مرسلہ کتاب دونوں پہنچے خیر و عافیت کی اطلاع سے مسرت ہوئی۔ اللہ جو آب و دانہ رکھتا ہے وہ مل کر رہتا ہے جو نہیں رکھتا لاکھ کوشش کے باوجود نہیں ملتا اللہ سے معین چیز کی دعا نہیں کرنی چائیے بلکہ یہ کہے کہ اے اللہ مجھے وہ چیز دے جس میں میری بھلائی اور تیری رضا مندی ہو۔ حدود حرم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے چلے آتے ہیں۔رسول اللہ نے ان کی تجدید فرمائی۔ یہ نہیں کہ ان کو خود مقرر فرمایا ہے حد حرم میں چیونٹی کا مارنا حرام ہے اس لیے جنگ بدرجہ اولی ممنوع ہے لیکن جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ ہی نے رسول اللہ کو جنگ کرنے کا حکم دیا تاکہ اللہ کے گھر کو کافروں کے ہاتھ سے نکالیں اس صورت حال کا عام حالات پر اطلاق کرنا بے عقلی کی بات ہے خاص کر جب صراحت ہے کہ اللہ کے حکم سے وہ خصوصی کام کیا گیا ہے۔ حدیث میں رسول اللہ صل للہ علیہ والہ وسلم کا فرمان ہے کہ عالم لوگ قرآن و حدیث میں صراحت نہ ہو تو اجتہاد کرتے ہیں اور کبھی صحیح نتیجے پر پہنچتے ہیں اور کبھی خطا کرتے ہیں۔ اس لیے ایک دوسری حدیث میں ذکر ہے کہ علما میں اختلاف رائے ہو تو وہ اللہ کی رحمت ہے۔ بن باز صاحب، عالم آدمی ہیں میں ان سے بارہا مل چکا ہوں لیکن پیغمبر نہیں کہ ان کی ہر بات مانی جائے بلکہ دوسرے علما کی رائے بھی دیکھنی چائیے۔ وہ اس فرقے کے ہیں جس کو وہابی کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ فضول بات ہے کہ مسجد نبوی کی زیارت کے لیے جانا ہو تو اچھی چیز ہے اور اس مسجد میں رسول اللہ صل للہ علیہ والہ وسلم کی قبر کی زیارت سے روکیں وہ رسول اللہ کی شفاعت سے محروم ہونے کا خطرہ مول لیتے ہیں۔
جس حدیث میں یہ حکم ہے کہ مکے سے باہر کے لیے مکہ جائیں چائے حج کے لیے ہو یا عمرے کے لیے تو فلاں مقام سے احرام باندھیں۔ اس کا مطلب یہ لینا احمقانہ بات ہے کہ حج اور عمرے کے سوا کسی تیسری چیز کے لیے مکہ جائیں تو احرام کی ضرورت نہیں۔ احرام بیت اللہ کے احترام کے لیے ہے۔ جو لوگ حدود حرم کے اندر رہتے ہیں ان کو روز کئی کئی بار عمرہ کرنے کا حکم دینا زحمت کا باعث ہوتا، اس لیے ان کے لیے بعض سہولتیں دی گئی ہیں لیکن جو شخص حدود حرم کے باہر سے مکہ جائے تو اس کو طواف اور سعی کر کے عمرہ کرنے میں مشکل سے آدھ گھنٹہ لگتا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی شخص روزانہ جدے سے مکے کو کئی بار جاتا ہو۔
رسول اللہ صل للہ علیہ والہ وسلم کی (قبر کی) زیارت بت پرستی کے لیے نہیں، بلکہ شکرگزاری کے اظہار کے لیے ہے۔ قرآن میں ہے: وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ: اس سے بڑھ کر اللہ کی کیا نعمت ہو سکتی ہے کہ ہمیں ایک نبی بھیج کر ہدایت کا ساماں کرے۔ کیا اس نبی کا شکریہ ادا نہیں کرنا چائیے۔ کیا اس پر اللہ کی رحمتیں نازل ہونے کی دعا نہیں کرنی چائیے۔ اس لیے خود نماز میں اللہھم صل علی محمد وغیرہ کہنا واجب ہے۔ جب نماز تک میں واجب ہے تو نماز کے باہر کیوں زیارت سے روکا جائے۔ یعنی قبر کے سامنے درود پڑھنے سے کیوں روکا جائے؟ قرآن میں یہ بھی ہے کہ إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا: اس کی تعمیل میں ہم حضور کی قبر پر حاضر ہونا چاہتے ہیں کوئی متواضع نبی یہ نہیں کہے گا کہ میری سالگرہ مناؤ میری قبر پر حاضری دو لیکن عقل سلیم کہتی ہے کہ ہر مسلمان کو یہ کرنا چائیے۔ اس کام میں خلاف اسلام کام، قبر پرستی وغیرہ کا سوال نہیں، بلکہ مسلمان صرف اپنی شکر گزاری کے اظہار کے لیے جاتے ہیں۔ انما الاعمال بالنیا اللہ نیت کو دیکھتا ہے۔ آپ پتہ بدلتے رہتے ہیں۔ معلوم نہیں یہ خط ملتا بھی ہے یا نہیں۔ ہر خط میں صحیح اور کمل پتہ ضرور لکھیے اور اس خط کے پہنچنے کی اطلاع دیجیے کیوں کہ اس الگ پتہ ہے اور پرانے خط پر الگ پتا۔ اللہ حافظ
ماخذ:بشکریہ نگارشات، ڈاکٹر محمد حمید اللہ، جلد سوم، مرتبہ محمد عالم مختار حق

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.