ڈاکٹر محمد حمید اللہ بنام مدیر ماہنامہ الحق، شمارہ اگست 1982ء
پاریس 7 ذی القعدہ 1402ھ
استاذ محترم زاد فیضکم، السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
ایک سفر سے چند دن ہوئے واپس آیا۔ ایک اور قریب میں پیش نظر ہے۔ واللہ علی ما یشاء قدیر۔
آپ کی دو نوازشوں کا جواب ذمے ہے۔ تعویق پر معذرت خواہ ہوں۔ الاول فالاول۔
1۔ آپ نے امام محمد کے متعلق وہاں کے ناقد کے بیانات کی جواب دہی چاہی تھی۔ کاش آپ تحریر فرماتے کہ ناقد موصوف کا مضمون کہاں چھپا ہے تا کہ کسی اور دوست کو لکھ کر اس کا نقل یا فوٹو کاپی منگوا سکتا۔ ایک بات صحیح ہے اور مجھے اپنی غلطی کا اعتراف ہے وہ یہ کہ امام ابو حنیفہ نے تدوین فقہ کی جو انجمن سی بنائی تھی اس میں امام محمد کا زیادہ حصہ نہیں ہونا چائیے۔ اس کے سیکرٹری امام ابو یوسف تھے۔ ممکن ہے امام محمد نے معمولی کاتب یا نقل نویس کا یا کوئی اور اسی طرح کا علمی کام اس میں انجام دیا ہو کیوں کہ ابھی وہ کم عمر تھے لیکن دیگر بیانات کی دلیلیں پڑھے بغیر کچھ رائے زنی نہیں ہو گی۔
2۔ الحق (رمضان شوال 1402ء) ابھی ابھی آیا ہے۔ اس کے صفحہ 575/71 پر اس ناچیز کا بھی ذکر معلوم ہوتا ہے ”ڈاکٹر عبد الرؤف“ معلوم نہیں زیڈ صاحب کے قلم سےنکلا ہے یا آپ کے کاتب کی غلطی ہے۔ بہر حال عرض ہے قرآن مجید کا یا حضرت موسی علیہ السلام کے معجزے کا انکار بالکل نہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ واقعہ کہاں پیش آیا؟ زیڈ صاحب کا ”دریا آیا دریائے نیل ہے یا بحر فلزم (بحر احمر) دریائے نیل بھی اپنے دہانے کے پاس بہت چوڑا اور گہرا ہے۔ براہ کرم زیڈ صاحب بھی قرآن، حدیث یا کسی اور مستند چیز کا حوالہ دیں کہ ”لاش دریا نے خود اس کے بعد کہیں ساحل پر پھینک دی“۔ یہ بیان کہ ”مسلمہ امر یہ ہے“ دعوی ہے اور یہ ثبوت چاہتا ہے۔ میں نے جو گمان ظاہر کیا ہے وہ انسانی فطرت کے تقاضے پر مبنی ہے۔ میرا آپ کا بچہ ڈوب جائے تو ہم کیا کریں گے؟ ہمراہ غوطہ خور موجود ہو یا تیرنا جاننے والے ساتھ موجود ہوں تو کیا وہ غوطہ لگا کر ڈوبے ہوئے شخص کو نہیں نکالیں گے؟ دنیا عالم اسباب ہے۔ خدا اسباب پیدا کرتا ہے۔ ماخذ معلومات میں ہو تو تصور یہ ہو گا کہ عالم فطرت کے مطابق بات ہوئی ہو گی۔
مزید برآں یہ نہ بھولیے کہ سورۂ طہ میں حضرت موسی کو ان کی ماں ”یم“ میں ڈالتی ہے تو فرعون بھی یم ہی میں غرق کیا جاتا ہے۔ اس سے میرے گمان کو تقویت ہوتی ہے کہ دونوں جگہ دریائے نیل مراد ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
ناچیز
محمد حمید اللہ، پاریس فرانس
ماخذ: ماہنامہ الحق۔ اگست 1982ء