ڈاکٹر محمد حمید اللہ بنام مظہر ممتاز قریشی، 7 شعبان 1411ھ
7 شعبان 1411ھ
22 فروری 1991ء
مخدوم و محترم زادمجدکم
سلام مسنون۔ خیر و عافیت کا طالب۔ کل آپ کا 18 فروری 1991ء کا کرم نامہ ملا۔ ممنون ہوا۔
ہر شخص اپنے فائدے کو سب سے مقدم رکھتا ہے۔ ایک غیر مسلم سے آپ خیرات کی توقع کیوں کرتے ہیں؟ یہ جنگ مسلمانوں(1) کی خانہ جنگی ہے یعنی قصور اس مسلمان نما شخص کا ہے جس نے اس کا آغاز کیا۔ مظلوم مسلمان مدد کے لیے غیر مسلمانوں کو بھی بلاتا ہے تو اس کا کوئی قصور نہیں۔ اگر امریکا کی مدد نہ لیں تو کویت کے لیے عراق سے کون جنگ کرے گا؟
میں نے آپ کو یہ نہیں لکھا تھا کہ میں نے کوئی مضمون بھیجا تھا تو اسلام آباد والوں نے اسے رد کر دیا ہے۔ بلکہ یہ میرا جو عربی مضمون(2) انھوں نے چھاپا تھا اب اس کو رد کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ میرا بیان غلط ہے۔
میں نے یہ بھی نہیں لکھا کہ لیبیا والے لڑکے میری مدد کر رہے ہیں بلکہ یہ کہ جو صاحب مجھے مدد دے رہے تھے ان کی صلاحیتوں کے باعث لیبیا والے بھی بار بار ان کو مدعو کر رہے ہیں۔
عطاء اللہ(3) میرا بھتیجا ہے۔ اس نے حیدر آباد میں میرے جتنے مطبوعہ مضمون ملے ان کی فوٹو کاپیاں مجھے پاریس بھیج دیئے ہیں۔ یہ بھی لکھا ہے کہ میرے بہت سے غیر مطبوعہ فلمی مضمون بھی ملے ہیں۔ ان کی مجھے تو ضرورت نہیں ہے۔
حیدر آباد کے حبیب کمپنی والے امریکا نہیں گئے ہیں۔، حیدر آباد ہی میں ہیں لیکن ان کے پاس اتنا مال، سرمایہ نہیں ہے کہ میرے مضمونوں کا مجموعہ چھاپیں۔
ہمدرد فاؤنڈیشن والے یہ نہیں کہ ان کو میرے مضمونوں سے دلچسپی نہیں بلکہ یہ کہہ رہے ہیں کہ آج کل ان کے پاس رقمی گنجائش نہیں ہے دیگر خرچ ہیں۔
آپ کا ملفوفہ اخباری تراشہ بھی شکریے کے ساتھ دیکھا۔ شرمندہ ہوں کہ آپ کی ختم نہ ہونے والی عنایتوں پر آپ کا خرچ ہی خرچ ہے۔ میں آپ کی کوئی خدمت کس طرح کروں؟
مکان میں سب اہل و عیال کو سلام۔ نیاز مند
الفقیر الی اللہ
محمد حیمد اللہ
_________________
حواشی:
(1) میں نے عراق جنگ کے بارے میں لکھا تھا کہ امریکا کے کہنے پر صدام حسین نے ایک مسلمان ملک کویت پر حملہ کر دیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے امریکا کے بارے میں لکھا ہے کہ امریکا سے خیرات کی توقع کیون کی جائے۔ لیکن یہ بھی لکھا ہے کہ امریکا کی مدد نہ لیں تو کویت کے لیے عراق سے کون لڑے گا۔ ڈاکٹر صاحب کے بیان سے بات معلوم ہوئی کہ خانہ جنگی کے زمانے میں غیر مسلم سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔
(2) ڈاکٹر صاحب نے اسلام آباد کے رسالے الدراسات السلامیہ میں ان کے خلاف عربی میں مضمون شائع کرنے کے بعد جواب بھیجوایا تھا۔ ایڈیٹر صاحب نے جواب شائع کر دیا اور یہ لکھ دیا کہ ڈاکٹر صاحب کا بیان غلط تھا۔ اب یہ فیصلہ کون کرے گا کہ کون غلط کون صحیح تھا۔ یہ اختلاف رائے کا مسئلہ ہے اور اہم وضوع سے متعلق ہے۔ رد کرنے کے بجائے اس کا علمی انداز میں جواب دینا چائے تھا۔
(3) ڈاکٹر صاحب ان مضامین کا ذکر کر رہے ہیں جو حیدر آباددکن میں ان کے بھتیجے جناب عطاء اللہ صاحب کے پاس موجود تھے۔