ڈاکٹر محمد حمید اللہ بنام مدیر ماہنامہ الحق، شمارہ ستمبر 1981ء
مخدوم و مکرم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
آپ اپنے موقر رسالہ الحق کے ارسال سے اس نا چیز کو سرفراز فرماتے رہتے ہیں۔ آج رمضان المبارک 1401ھ کا شمارہ پہنچا۔ استفادہ کیا۔ چند باتوں پر مؤدبانہ توجہ منعطف کراؤں گا۔
ص 7 پر امام بخاری اور صحیح بخاری کے فاضلانہ مضمون میں مدون مقالہ نے حضرت ابو طالب کا محاورہ استعمال کیا ہے۔ صحیح بخاری میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے صراحت ہے کہ ابو طالب کا مقام جہنم ہے اگرچہ خفیف ترین عذاب ہو گا۔ یعنی قدموں تلے آگ ہو گی لیکن یہ اس بات کے لیے کافی ہو گی کہ سر کا بھیجا پگھل کر کھولتا رہے۔ ان حالات میں حضرت کا لفظ نا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
رجم پر جو فاضلانہ مقالہ ہے اس میں ص 26 تا 27 پر اس سے بحث ہے کہ رجم کا ذکر کیوں قرآن مجید میں نہیں ہے۔ ایک پہلو یہ میرے نا جیز ذہن میں آتا ہے کہ اولئک الذین ھدی اﷲ فبھد اھم اقتدہ (سورہ انعام 6:83-90) ختم المرسلین کو حکم دیا گیا ہے انبیا سلف پر بدستور عمل پیرا رہیں (بجز ان احکام کے جو قرآن نے منسوخ کئے ہوں) صحیح بخاری میں صراحت ہے کہ تورات میں زنا محصنہ کی سزا رجم ہے۔ رسول اکرم صل للہ علیہ والہ وسلم نے اس پر عمل کرایا۔ تورات میں زنا غیر محصنہ کی سزا رقمی جرمانہ ہے اس کو سورۂ نور میں منسوخ کر کے سو کوڑوں کی جسمانی سزا مقرر کی گئی۔ لہذا زنا محصنہ کا موسوی و عیسوی قانون منسوخ نہ ہوا اور سورۂ انعام میں صراحت ہوئی کہ اس پر بدستور عمل کیا جائے۔
اسی مضمون میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا آیت رجم کے متعلق بیان بھی زیر بحث رہا ہے۔ جہاں تک میں نے تحقیق کی کسی روایت میں حضرت عمر نے یہ نہیں فرمایا کہ الرجم فی القرآن بلکہ فی کتاب اللہ جس کا اطلاق تورات اور انجیل پر بھی اسی طرح ہو سکے گا۔ جس طرح قرآن مجید پر۔ اور واقعتہً رجم کا حکم موجود و متداول تورات اور انجیل دونوں میں موجود ہے ( اور عہد نبوی کی تورات میں بھی ہونا صحیح بخاری مسلم سے ثابت ہے)۔
اگر علماء کرام ان حقیر سوالات پر روشنی ڈالیں تو طلبۂ علم فائدہ اثھائیں۔ الحق کے اسی شمارے میں ص 54 پر فرعون کی لاش پر صدق جدید لکنھو کا ایک مضمون نقل ہوا ہے (صدق جدید کی تاریخ درج نہیں) اس سلسلے میں دو باتیں عرض کرنی ہیں:
1۔ رسالہ فاران کراچی بابت مئی 1977ء میں اس موضوع پر ڈوب مرے فرعون کا نام کے عنوان سے بحث ہوئی ہے۔
ڈاکٹر موریس بوکائی (آپ کے ہاں ہیو کیلی چھپا ہے) کی کتاب میں فرعون کی لاش کا تو ذکر ہے لیکن ان کا اصرار ہے کہ حضرت موسی مدین میں طویل عرصہ (تقریباً پچاس) سال مقیم رہے (قرآن میں آٹھ، زیادہ سے زیادہ دس سال کا ذکر ہے) یہ کہ اس اثنا میں یہودی نوزائیدہ بچوں کو قتل کرنے والا فرعون مر گیا اور اس کا بیٹا جانشین ہوا۔ اسی پر اسی سال کی عمر میں حضرت موسی مصر واپس آئے اور نیا حکمران ڈوب مرا۔ لیکن اس میں دشواری یہ ہے کہ اسی جدید حکمران منفتاح کا ایک کتبہ ملا ہے کہ میں نے اسرائیل کو اس طرح نابود کیا ہے کہ اس نسل کا دنیا سے خاتمہ ہو گیا ہے۔ یہ واقعہ اگر خروج مصر سے قبل پیش آیا تو حضرت موسی کے ہمراہ جو چھ لاکھ سے زائد یہودی نکلے وہ کہاں سے آئے؟ اگر خروج کے بعد حملہ ہوا سزا دہی کے لیے تو تورات اس سے کیوں ساکت ہے اور اپنی ان گنت بپتاؤں میں اس کا اضافہ کیوں نہیں کرتی، یوں بھی موریس بوکائی حجیت حدیث سے انکار کرتے ہیں۔
نا چیز
محمد حمید اللہ
ماخذ: ماہنامہ الحق اکوڑہ خٹک، ستمبر 1981ء