ڈاکٹر محمد حمید اللہ بنام نثار احمد اسرار، 1389ھ

4، Rue de Tournon
75-Paris/ France
20 شوال 1389ھ
مکرمی دام لطفکم۔ سلام مسنون
مفتی علی جمالی کے فتوے کا مجھے علم نہیں۔ مسئلے کا عام پس منظر یہ ہے کہ کسی شخص کے مسلمان یا کافر ہونے کا مسئلہ فتوے کے ذریعے سے طے ہوتا ہے۔ ہزاروں نہیں تو سیکنڑوں عقائد ایسے ہیں جن پر مسلمان کو مرتد قرار دیا جاتا رہا ہے۔ کبھی بجا کبھی بےجا (بےجا کے لیے یہ کہنا ہی کافی ہو گا کہ حضرت ابو بکر سے لے کر ابو حنیفہ اور دیگر بڑی شخصیتوں میں سے شاید ہی کوئی شخص بچا ہے جسے کسی نہ کسی نے کافر نہ قرار دیا ہو)۔ کسی غیر مسلم کو کافر قرار دینا اور کسی مسلمان کو کافر یعنی مرتد قرار دینا یکساں نہیں۔ غیر مسلم اپنے کفر پر برقرار رہتا ہے، مسلمان ارتداد پر اپنے سیاسی Allegiance سے اپنے کو منقطع کر لیتا ہے یعنی وہ ایک طرح سے Treason & rebellion کا ارتکاب کرتا ہے جس کی سزا موت ہے (یاد رہے کہ اسلامی حکومت کی اساس نہ زبان پر ہے نہ نسل پر، نہ رنگ پر بلکہ دین پر۔ اس لیے اس اساس سے وابستہ شخص کا اپنے آپ کو اس سے منقطع کر لینا سیاسی غداری اور بغاوت سمجھا جاتا ہے)۔ فتاوی عالمگیری میں بھی یہ حکم ہے کہ صحابہ کو گالی دینا ارتداد سمجھا جائے گا۔ ان حالات میں اگر کسی زمانے میں شیعوں کا ان کے جوش جنون کے باعث کافر یعنی مرتد قراد دیا گیا ہو اور جب کوئی پورا ملک مع اس کی حکومت کے اس زمانے کی زد میں آئے تو خالص قانونی نقطہ نظر سے اس مطعون ملک سے جنگ اتنی ہی درست ہو گی جتنا کسی ایک مرتد فرد کو سزائے موت دینا__یہ علمی پہلو ہے لیکن اچھا ہو اگر آپ اس پرانے قصے کو تازہ نہ کریں۔ مذکورہ فتوے کو آپ درست قرار دیں تو شیعہ نازاض ہوں گے اور نادرست قرار دیں تو سنی بگڑیں گے۔ دو چار سطروں میں اس سے گزر جانا ہی بہتر ہے مثلاً فلاں فتوی دیا گیا جس کا ایک تاریخی منظر تھا۔ اس بد قسمت واقعے پر اب بحث بے فائدہ ہے۔
(2) غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کی حیثیت اسلامی علاقے میں الگ ہے، زیر جنگ ملک میں الگ ہے۔ کسی ملک سے جنگ ہو رہی ہو تو مفتوحہ علاقے کی مال غنیمت میں جائیداد منقولہ بھی آتی ہے اور غیر منقولہ (زمین مکان وغیرہ) بھی اور یہ فاتح کی مرضی پر منحصر ہے کہ کیا کرے۔ اس لیے ہر وقت الگ فیصلہ ہو سکتا ہے۔ عہد نبوی میں مشرکین مکہ کی عبادت گاہ (کعبہ) کو فتح مکہ پر ضبط اور اسلامی عبادت گاہ میں مبدل کر دیا گیا۔ طائف وغیرہ کے بت خانوں کی فتح یا الحاق کےبعد عہد نبوی میں توڑ کر تباہ برباد کر دیا گیا۔ اس کے بر حلاف نجران کی فتح و الحاق پر وہاں کے عیسائیوں کو کامل آزادی دی گئی اور آنحضرت نے ان کے گرجاؤں اور پادریوں وغیرہ کی حفاظت کا جو چارٹ عطا فرمایا اسے تاریخ نے محفوظ رکھا۔ خلافت راشدہ میں بھی یہی صورت حال رہی۔ فاتح نے کبھی کچھ فیصلہ کیا اور کبھی کچھ اور۔ مثلاً دمشق میں فتح پر آدھے گرجے ضبط کر لیے گئے اور آدھے مفتوح لوگوں کے ہاتھ میں باقی رہنے دیئے گئے تھے۔ ایران میں پارسی آتش کدوں کے متعلق بھی ایسا ہی طرز عمل ملتا ہے۔ اس زمانے کا انٹرنیشنل لا یہی تھا اور ساری دنیا میں ایسا ہی عمل تھا کہ مفتوح ملک کے متعلق فاتح کا فیصلہ قطعی ہو۔ لیکن ایک مرتبہ امان دینے کے بعد مکرر اس کو چھیننا، توڑنا وغیرہ اسلام میں حرام ہیں۔ اس کی بھی بہ کثرت نظیریں ہیں۔
(3) محمد فاتح کے زمانے کے Devsirme سے مجھے واقفیت نہیں۔ عام قانون حسب ذیل ہے: جنگی قیدیوں کے متعلق قاعدہ ہے کہ فاتح چاہے تو ان کو غلام بنا سکتا ہے، لیکن انھیں اسلام لانے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ اس میں ایک استشنا یہ ہے کہ اگر کوئی نابالغ بچہ جنگ میں گرفتار ہوا اور تنہا ہو یعنی اس کے والدین اور سرپرستوں میں سے کوئی اس کے ساتھ نہ ہو اور اسے غلام بنانے کا فیصلہ کیا جائے تو اس بچے کو مسلمان سمجھا جاتا ہے۔ گرفتاری، غلام بنائے جانے اور مسلمان قرار دیئے جانے کے بعد اگر اس بچے کا سرپرست اسلامی سرزمین پر آئے تو سابقہ فیصلہ نہیں بدلتا۔ غالبا یکثی چری اسی طریقے سے بنی تھی۔ یہ قانون امام محمد شیبانی (شاگرد ابو حنیفہ) نے لکھا۔ تفصیل کے لیے دیکھیے شرح السیر الکبیر، ترکی ترجمہ منیب عینتابی (مطبوعہ) باب من اسلام الصبی والصبیۃ الماسورین ترکی ترجمہ سید کبیر جلد دوم صفحہ 362 و مابعد۔ یہ اہم چیز ہے! اسے آپ وہاں پڑھ سکتے ہیں۔ عربی خط والی ترکی ہے۔
(4) اسلام نے غلام بنانے کی اجازت دی ہے، اسے واجب نہیں قراردیا ہے۔ جب غلام بنانا جائز ہے تو اس کی خرید و فروخت بھی جائز ہو گی۔ آپ وہاں میری کتاب Muslim Conduct of State یا اس کا ترکی ترجمہ مل جائیں گے ان میں انڈکس کی مدد سے آپ اس کے قانون کی تفصیل معلوم کر سکتے ہیں۔حصہ قانون جنگ، اشخاص سے برتاؤ، قیدیوں سےبرتاؤ۔ مختصر یہ کہ غلام صرف جنگی قیدی کو بنایا جا سکتا ہے اور لونڈی کی شادی غلام سے کرائیں تو اس کی اولاد بھی غلام رہتی ہے۔ اس کے سوا دوسری صورتیں جآئز نہیں۔ اس بارے میں آپ Hobhouse کی کتاب Morals in Evolution وہاں ملتی ہو تو اس میں Slavery کا باب پڑھیں۔ وہ کہتا ہے کہ عیسائیت نے غلام بنانے کی حالت بدتر کر دی۔ تاریخی نقطہ نظر سے امریکا میں غلامی کو برخاست کرنے کی تحریک اس وقت شروع ہوئی جب مشین بن گئے اور غلاموں کے مقابلے میں سستے پڑنے لگے۔ اس میں عیسائیت کو کوئی دخل نہیں ہے، محض معاشی منفعت اندوزی کے خیال سے غلام بنانا بند کیا گیا۔
اگر اور کوئی تفصیل مطلوب ہو تو لکھیں۔ مجھے تا حال وہاں آنے کی اس سال دعوت نہیں آئی ہے اس لیے کہہ نہیں سکتا کہ مارچ میں آپ سے ملاقات ہو سکے گی یا نہیں۔ خدا کرے آپ خیر و عافیت سے ہوں۔
مخلص
محمد حمید اللہ

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.