ڈاکٹر محمد حمید اللہ بنام مظہر ممتاز قریشی، 11 صفر1412ھ

11 صفر 1412ھ
مخدوم و محترم زاد مجدکم
سلام مسنون۔ آپ کا نوازش نامہ ملا۔ رسالہ الشریعہ اور رسالہ المذاہب کے فوٹو کاپی بھیجے ہیں۔ میری کوتائیوں کو معاف فرمائیں۔ مجلہ الدراسات الاسلامیہ میں (جلد 25، شمارہ 2، 1990ء میں) میرے مضمون(1) پر مولانا صغیر حسن معصوصی نے ایک تردیدی مضمون شائع کیا ہے (میں نے ایک مختصر جواب بھیجا مگر ارباب مجلہ نے اس کی اشاعت مناسب نہیں خیال کی۔ انھیں آزادی ہے) اس کی آپ کو ضرورت ہے تو یہ رسالہ وہاں آپ کو آسانی سے مل جائے گا۔ آپ کا حکم سر آنکھوں پر کہ میں کسی سات آٹھ(2) زبانیں جاننے والے کو ملازم رکھوں۔ یہ مسبب الاسباب کے ہاتھ کی چیز ہے۔ آپ یہاں رہتے تو اپنی پیاری بھتیجی(3) سے (آپ کی اجازت سے) کام لیتا۔ ہر چیز کا وقت خدا مقدر فرماتا ہے۔ چائے وہ کتاب النبات(4) ہو یا کوئی اور چیز، صبر کے سوا چارہ نہیں۔ مکان میں کورنشات۔
خادم
محمد حمید اللہ
__________________
حواشی:
(1) ڈاکٹر صاحب نے مولانا صغیر حسین معصومی صاحب کے تردیدی مضمون کا ذکر کیا ہے جو اسلام آباد کے عربی رسالے الداسات السلامیہ میں چھپا تھا جس کا جواب ڈاکٹر صاحب نے مجلہ کے ایڈیٹر صاحب کو پیرس سے بھجوایا تھا۔ مگر ایڈیٹر صاحب نے ڈاکٹر صاحب کا جواب شائع نہیں کیا۔
(2) میں نے ڈاکٹر صاحب کو یہ تجویز پیش کی تھی کہ انھوں نے مختلف زبانوں میں جو کتابیں لکھی ہیں ان کا ترجمہ کرایا جائے مگر ڈاکٹر صاحب نے اپنی بے بسی کا اظہار کیا ہے حالاں کہ وہ چاہتے تو ان کے ؤاگرد یہ کام انجام دے سکتے تھے یا ان کے مداح اور خیر خواہ دوست بھی ترجمے کا کام بہ خوشی کر سکتے تھے۔ ڈاکٹر صکحب کو غلط فہمی ہو کئی تھی کہ وہ خود اکیلے اپنے اخراجات پر یہ ترجمے کا کام کروائیں۔ حالاں کیہ ایسی تجویز کس طنح دی جا سکتی تھی جب کہ میں ڈاکٹر صاحب کی مالی حالات سے واقف تھا۔
(3) ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے کہ یہ ترجمہ کا کام وہ اپنی پوتی آنسہ سدیدہ عطاء اللہ صاحبہ سے کرواتے میری اجازت کے بعد، حالاں کہ اس میں مری اجازت کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ ڈاکٹر صاحب کی انکساری کا طریقہ تھا اور وہ پھر یہ کام کے انجام دینے کے لیے خدا پر بھروسا کر رہے تھے وہی سب کچھ کروا سکتا ہے۔
(4) خدا پر بھروسے کی ایک مثال یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی مرتب کی ہوئی عربی کتاب النبات کا ذکر کیا ہے، دراصل اس کی اشاعت میں طویل عرصہ گزر گیا تھا اور ڈاکٹر صاحب انتظار کرتے رہے اور خدا پر بھروسا کرنے کی وجہ سے وہ کتاب بالآخر ہمدرد سے شائع ہوئی۔

You might also like
Leave A Reply

Your email address will not be published.