بنام مولانا مجیب اللہ ندوی (مدیر الرشاد، اعظم گڑھ)
7 جنوری 1986ء
مخدوم و محترم زادفیضکم۔ السلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ!
ستمبر 1985ء کا الرشاد آج پہنچا۔ ممنون ہوا۔ بارک اللہ فی مساعیکم۔
دو ایک چھوٹی چیزوں کے لیے زحمت دیتا ہوں مناسب ہو تو جواب سےسرفراز فرمائیں۔
(1) قرآن مجید اور غیر عربی رسم الخط کے مضمون کو بہت دلچسپ پایا، اصل میں اسی کے سلسلے میں زحمت دے رہا ہوں۔
(الف) قرآن مجید کا عربی املا رسم عثمانی میں رکھنے کا ایک نیا فائدہ حال میں دیکھا گیا، اصل مکتوب نبوی بنام المنذر بن ساوی میں لا الہ عسرہ لکھا ہوا ملتا ہے۔ غیرہ نہیں جرمن، مستشرق فلایشر کے لیے یہ کافی تھا کہ اصل کو جعلی قرار دے کہ کاتب نبوی اتنا جاہل نہیں ہو سکتا مگر قرآن مجید (سورہ 51، آیت 47) میں آج بھی تائید لکھا جاتا ہے۔ باید نہیں تاشقند میں محفوظ قرآن عثمانی میں ایسی بہت سی دیگر مثالیں بھی ملتی ہیں، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ پرانے خط میں حرف یا کو دو شوشوں سے لکھتے تھے، آہستہ آہستہ ایک شوشے سے لکھنے کا رواج بھی ہو رہا تھا۔ (بسلسلہ الرشاد ص 35)
(ب) قرآن مجید کے قدیم ترین لاطینی ترجموں میں سے ایک مراچی (Maracci) کا ہے اس میں عربی متن بھی عربی خط میں ہے صرف ترجمہ نہیں ہے۔ (ایضاً 39)
(ج) محمد پکھتال مرحوم کا اولین ایڈیشن صرف انگریزی ترجمے پر مشتمل ہے، اس میں عربی متن نہیں ہے۔ یہ بعد کے ایڈیشنوں میں ہوا ہے (ایضاً ص 39) غالباً میرا فرانسیسی ترجمہ پہلا ہے جس میں عربی متن کے ساتھ چھپنے والے ایڈیشن میں صفحے دائیں طرف سے (عربی کتاب کی طرح) شروع ہوتے ہیں دیگر مسلمان ترجموں کی طرح نہیں (ایضاً ص 39)
(د) کاش اس بیان کی ذرا زیادہ وضاحت ہوتی (جس کی مجھے سخت ضرورت ہے) کہ حال میں اسلامی ساہتیہ پرکاش کے زیراہتمام مختلف ہندوستانی زبانوں میں قرآن کریم کے ترجمے شائع ہوئے ہیں، جن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔میں متن کی بھی عربی کتابت شامل ہے۔
(40) کیا یہ عربی متن تامل، تیلگو، گجراتی مراٹھی اور ہندی رسم الخطوں میں ہے یا عربی رسم الخط میں؟ کاش ان کی تاریخ طباعت بھی معلوم ہو سکے اور مترجموں کے نام بھی۔
(ھ) نندکمار اور ستھی کے ایڈیشن میں صرف عربی متن بخط ہندی ہے یا اس میں ترجمہ بھی ہے؟ (ص 41)
(2) محض اطلاعاً عرض ہے کہ تقریباً پچاس سال پہلے ایک بنگالی ترجمہ قرآن میں عربی متن بنگالی رسم الخط میں بھی تھا، کم و بیش اسی زمانے میں ترکی میں سارا قرآن (بغیر ترجمے کے) صرف لاطینی خط میں چھپا اور تاحال رائج ہے۔
(3) یہ بھی اطلاعاً عرض ہے کہ میرے علم میں سرسید وہ قدیم ترین شخص ہیں جو انگریزی زبان کو عربی خط میں لکھنے لگے تھے۔ وجہ یہ تھی کہ وائسرائے کی کونسل کے رکن تھے جو بیان دینا ہوتا تھا وہ لکھ کر انگریزی میں ترجمہ کراکر اور اسے عربی خط میں لکھ کر ساتھ لے جاتے تھے، انہیں انگریزی زبان تو آتی تھی لیکن انگریزی خط پر عبور نہ تھا۔
میں نے 1933ء میں قرآن لندن میں ایک انگریز نو مسلم مسٹرفویلنگ کو سورۂ فاتحہ کاانگریزی ترجمہ عربی خط میں لکھتے پایا، اب حال میں وہاں نو مسلم انگریزوں نے رسالہ نکالنا شروع کیا ہے جس میں پورے قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ (انگریزی زبان بخط عربی) بہ احتیاط شائع کرنا مقصود ہے، کئی نمبر نکل چکے ہیں، خدا پروان چڑھائے ایک زمانہ میں اسپینی، پرتگالی اور پولینڈی زبانیں عربی خط میں لکھی جاتی تھیں۔
(4) آخر میں یہ کہ فرانس میں ہماری ایک نو مسلم بہن نے ایک کتاب شائع کی ہے (کارنت حدیث اور سوژےولافام) یعنی چالیس حدیثیں عورت کے متعلق عربی ہی نہیں اس کا فرانسیسی ترجمہ بھی عربی خط میں دیا ہے جیسا کہ نام سے واضح ہو گا۔
نیاز مند
محمد حمید اللہ
ماخذ: ماہنامہ الرشاد، اعظم گڑھ۔ جنوری-فروری-مارچ 1986ء