ڈاکٹر محمد حمید اللہ بنام مظہر ممتاز قریشی، 15 ربیع الانوار 1405ھ
4، Rue de Turnon
France
پاریس
15 ربیع الانوار 1405ھ
مکرمی
سلام مسنون ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
آپ کا خط ملا، شکر گزار ہوں۔ آپ کے اعلانات یا درخواستوں کے نسخے مکرر سکرر آئے ہیں۔ سوائے اس کے کہ ڈاک کا خرچ آپ کو بڑھے اس کی مجھے ارسال میں کوئی فائدہ نہیں۔
راجستھانی ترجمے(1) کی اطلاع کا شکریہ۔ مسلم ورلڈ میرے پاس آتا ہے اس کے فوٹوؤں کی کوئی ضرورت بھی نہیں۔
میں نے کبھی نہیں لکھا کہ پاریس (پیرس) کے امام صاحب ایک رسالہ نکالتے ہیں۔ جو رسالہ فرانس اسلام نکلتا تھا وہ اب کوئی دس سال سے مالی دشوااریوں کے باعث بند ہے۔ اس میں سوانح عمریاں نہیں، بلکہ سورۂ فاتحہ کا نمونہ ہر زبان میں ہوتا تھا، اور ہر زبان کے جملہ مترجمین کا نام اور مقام اشاعت بہ حروف تہجی پر چھپتے رہے، ہر نمبر میں ایک زبان اورگجراتی تک پہنچا تھا۔
مجھے اپنی سوانح عمری(2) سے چڑھ ہے۔ حیدر آباد دکن میں 16 محرم 1326ھ کو پیدا ہوا، وئیں تعلیم پائی۔ اب فرانس میں پناہ گزیں ہوں۔
مجھے ابو الفضل صاحب(3) سے کوئی واقفیت نہیں رہی صرف نام سے واقفیت ہے۔ ابو محمد مصلح صاحب کے متعلق صرف اتنا جانتا ہوں کہ وہ بہار کے تھے اور حیدر آباد میں رہ کر وئیں وفات پائی۔ میں ان سے ممکنہ تعاون کرتا رہا۔ پروف ریڈنگ میں مدد دیتا رہا۔ مترجموں کے حالات سے نہ مجھے واقفیت ہے اور نہ واقف لوگوں سے واقف ہوں۔
احمد علی صاحب(4) کے ترجمے کی ارسال کی زحمت نہ فرمائیں۔ میں کیا جو اس کی تدقیق کر سکوں۔
میدان حشر(5) جیسے مسئلے سے نہ مجھے دلچسپی ہے اور نہ واقفیت، شاید کوئی لکھے تو پڑھوں گا بھی نہیں۔ یہ خدا کے اسرار ہیں عالم غیب کے۔
مکان میں آداب و تسلیمات۔
نیاز مند
محمد حمید اللہ
________________________
حواشی:
(1) اخبار جنگ لاہور میں یہ خبر چھپی تھی کہ انڈیا کے صوبے راجستھان کے محں اکرم صاحب نے راجستھانی زبان میں قرآن کا ترجمہ کیا ہے۔ میں نے اس کے تراشے بھجوائے تھے کہ کیوں کہ ڈاکٹر صاحب قرآن کے ترجموں کو جمع کر رہے تھے۔ اس کے لیے بھی شکریہ ادا کیا ہے۔
(2) صجھے افسوس تھا کہ اتنے بڑے عالم دین اور اسکالر کی سوانح عمری اب تک (اس وقت تک) لکھی نہیں گئی تھی۔ میں نے لکھا تھا کہ سوانح عمری لکھوانی چائیے جس کے جواب میں ڈاکٹر صاحب نے اس کام سے اپنی نفرت کا اظہار کیا اور خاص طور پر لفظ چڑھ استعمال کیا ہے۔ لیکن مختصر اطلاع دی کہ کہ وہ کب پیدا ہوئے اور حیدر آباد دکن میں ہی تعلیم حاصل کی (مدرسہ دار العلوم سے لے کر عثمانیہ یونیورسٹی تک) اور اب فرانس میں مقیم شکایت یو این میں داخل کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ ان دنوں پیرس میں یو این کا اجلاس ہو رہا تھا ابھی پہلی شکایت ایجنڈا پر آئی ہی تھی کہ حیدرآباد کا سقوط ہو گیا اور حکومت نے ڈیلی گیشن کو واپس بلا لیا لیکن ڈاکٹر صاحب نے غلام حیدر آباد کو واپس جانا پسند نہیں کیا اور پیرس کے اسی فلیٹ میں مقیم ہو گئے جہاں طالب علمی کے زمانے میں رہا کرتے تھے۔
(3) میں ڈاکٹر ابو الفضل صاحب کے قرآن کےترجمے کا ذکر کیا تھا جو پہلی دفعہ ترتیب نزولی کے مطابق کیا گیا تھا۔ پھر بعد میں لوگوں کے اعتراض پر موجودہ ترتیب سے ترجمہ شائع کیا۔ یہ الہ آباد کے رہنے والے تھے۔ کچھ دنوں بمبئی کے انگریزی اخبار ٹائز آف انڈیا میں بھی ملازمت کی تھی اور بعد حیدر آباد آ کر مقیم ہو گئے اور ہومیوپیتھک کا دواخانہ کھول دیا جو ڈاکٹر حمید اللہ صاحب کے گھر واقع تھا۔ ترپ بازار ان کے محلے کا نام ہے ڈاکٹر صاحب بھی اسی محلے کے دوسری طرف رہا کرتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ اعتراف ضرور کیا ہے کہ وہ پروف ریڈنگ کرتے تھے۔ مولانا ابو الاعلی مودودی صاحب بھی تھے۔ بعد میں یہ رسالہ مودودی صاحب نے خرید لیا اور وہ تک لاہور سے شائع ہو رہا ہے۔
(4) میں نے لکھا تھا کہ پروفیسر احمد علی( افسانہ نگار، دلی کی شام کے مصنف) نے انگریزی میں قرآن کا ترجمہ کیا ہے۔ وہ ترجمہ بھجوانا چاہتا ہوں۔ لیکن اس کے ارسال کرنے سے منع کیا تھا۔ وجہ نہیں لکھی کہ ترجمہ کیوں نہ بھجواؤں۔
(5) میں نے میدان حشر کے بارے میں معلوم کیا تھا کہ کس طرح لوگ جمع ہوں گے اور اللہ کے حظور کس طرح جوابات دیں گے اور یہ کتنے عرصف تک سلسلہ جاری رہے گا۔ کیا وہ بغیر غذا کے ڑندہ رکھے جائیں گے یا کہ ان کو جنت کے میوے کھانے کے لیے دیئے جائیں گے۔ غرض اس قسم کے سوالات کئے تھے جس پر ڈاکٹر صاحب نے لکھا کہ ان کو اس سے دلچسپی نہیں ہے۔ ان کا خیال تھا کہ یہ خدا کے اسرار ہیں اور عال مغیب کے معاملات ہیں۔